اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

کورونا کے شدید خطرات اور ہماری غیر سنجیدگی

 کورونا وبا کی پانچویں لہر ملک میں پوری شدت سے جاری ہے۔ جمعہ کے روز 7678 نئے کیسز سامنے آئے۔ جب سے کورونا وبا ملک میں آئی ہے کسی ایک دن نئے کیسز کی یہ سب سے زیادہ تعداد تھی۔ جہاں تک مثبت کیسز کی شرح کا تعلق ہے تو اس میں بھی تیز ترین اضافہ نظر آتا ہے۔ بدھ کے روز کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد اور پشاور میں مثبت کیسز کی جو شرح بالترتیب 40.13 فیصد‘ 15.15 فیصد‘ 11.80 فیصد اور 10.68 فیصد رہی جمعہ کے روز وہ بالترتیب 45.43‘ 17.89‘ 18.91 اور 15.59 فیصد تک چکی تھی‘ مگر اس بہت ہی سنجیدہ مسئلے کی جانب نہ تو حکومت متوجہ نظر آتی ہے اور نہ ہی عوام اس کا کچھ اثر لیتے دکھائی دیتے ہیں۔

وبا کا خطرہ جس قدر بڑھ چکا ہے ضروری تھا کہ حکومت کوئی وقت ضائع کئے بغیر احتیاطی تدابیر پر عمل کروانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرتی۔ ماضی میں اگر ہمارے ملک میں کورونا وبا کے اثرات پر آسانی سے قابو پا لیا گیا تو اس کا سبب بروقت فیصلے اور اقدامات ہی تھے۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ عوام کے لیے کورونا کے طبی اثرات کم رہے اور معیشت پر اس کے منفی اثرات سے نکلنا نسبتاً آسان رہا بلکہ اس کامیاب حکمت عملی سے عالمی سطح پر پاکستان کی نیک نامی میں بھی بہت اضافہ ہوا۔

ورلڈ بینک‘ عالمی ادارہ صحت اور کئی دیگر عالمی اداروں‘ تھنک ٹینکس اور ممالک کی حکومتوں نے پاکستان کے اقدامات اور اثرات کو سراہا۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ ماضی کی آزمودہ مشق کو دہرانا حکومت اور اداروں کیلئے مشکل نہیں ہو گا اور عالمی سطح پر سر اٹھاتی کورونا کی نئی لہر پاکستان کیلئے زیادہ بڑا خطرہ نہیں بنے گی؛ تاہم گزشتہ دو ہفتوں کے دوران صورتحال جس تیزی سے تبدیل ہوئی ہے اور وبا کا خطرہ جس طرح بڑھتا جا رہا ہے اس سے یوں لگتا ہے حالات بے قابو ہو رہے ہیں‘ اور اس کی وجہ فیصلے کرنے میں سست روی ہے۔ اس وقت جب ملک میں نئے کیسز کی تعداد سات ہزار سے بڑھ چکی ہے حکومت اسے معمول کے مطابق لے رہی ہے اورجب حکومتی دلچسپی کا عالم یہ ہو تو عوام کیونکر اس صورتحال کو سنجیدہ لیں گے؟ بسوں اور ریل گاڑیوں میں ہجوم کی صورت پہلی سی ہے اور لوگوں میں احتیاط کا کوئی رجحان کہیں نظر نہیں آتا۔

یہ صورتحال آنے والے دنوں میں کورونا کیسز میں شدید اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد اور پشاور میں دو‘ تین روز کے دوران مثبت کیسز کی شرح میں پانچ فیصد‘ تین فیصد‘ سات فیصد اور پانچ فیصد کے قریب اضافہ ہو چکا ہے تو اسے خطرے کی گھنٹی کے طور پر لینا چاہیے۔ یہ ملک کے اہم اور بڑے شہروں کی صورتحال ہے۔ چھوٹے شہروں‘ قصبوں اور دیہاتوں میں کیا صورت ہے حکومت کے پاس وہ معلوم کرنے کا کوئی آلہ نہیں۔ کورونا کی اس لہر کو روکنے کیلئے اگر خصوصی اور فوری اقدامات نہ کئے گئے تو یہ خدشہ بعید از قیاس نہیں کہ آنے والے چند ہفتوں میں ملک کا نظام صحت شدید دباؤ میں آ جائے گا۔ ویکسی نیشن سے اگر اس لہر کے جانی خطرات کم ہوں پھر بھی متاثرہ افراد کا ہسپتالوں میں داخلہ اور کئی روز کا علاج تو ناگزیر ہو گا جبکہ معاشی اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

ابھی تک لاک ڈاؤن کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی‘ مگر فوری اقدامات کرکے اگر وبا کی لہر کو روکا نہیں جاتا تو ایسا ممکن ہے کہ معیشت کے بعض شعبوں کی بندش ضروری ہو جائے۔ اس سے بچنے کا یہی راستہ ہے کہ احتیاط اور ویکسی نیشن۔ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے لیکن چند ایک دکانوں کو چھوڑ کر مارکیٹوں میں کہیں بھی پابندی نظر نہیں آتی۔ حکومت کو اصولی طور پر اس جانب اسی وقت متوجہ ہونا چاہیے تھا جب این سی او سی نے ملک میں کورونا کی پانچویں لہر سے خبردار کیا تھا۔ ہو سکتا ہے بعض حکام نے اپنی اپنی سطح پر احتیاطی تدابیر یاد دلائی ہوں مگر باقاعدہ حکمت عملی کے ساتھ قومی سطح پر کورونا ایس او پیز کا نفاذ آج تک نہیں ہو سکا‘ حالانکہ یومیہ نئے کیسز کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔

قومی سطح پر‘ خاص طور پر ان شہروں میں جہاں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے‘ ایس او پیز پر سنجیدگی سے عمل کی نوبت کب آئے گی؟ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ حکومت خود اس معاملے میں واضح نہیں ہے۔ حکومت کیلئے‘ حالات بے قابو ہونے کی صورت میں لاک ڈاؤن کا اعلان شاید آسان فیصلہ ہے بہ نسبت اس کے کہ بروقت فیصلوں سے وبا کے خطرات کو کم کیا جائے۔ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کروانے کے علاوہ حکومت کو ویکسی نیشن بھی ضروری قرار دینی چاہیے۔ گزشتہ برس یہ تجویز زیر غور آئی تھی کہ سرکاری دفاتر میں داخلہ ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ سے مشروط کیا جائے۔

بظاہر یہ ایک معقول تجویز تھی جس سے لوگوں میں ویکسی نیشن کا رجحان بڑھتا‘ مگر ایسی کسی تجویز پر عمل درآمد کی نوبت آج تک نہیں آ سکی۔ یہاں تک کہ جن چند مقامات پر ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ ضروری قرار دیا گیا ہے وہاں بھی اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ جب تک یہ اطوار رہیں گے کورونا کے خطرات سے نکلنا مشکل رہے گا۔ اس عالمگیر وبا سے لگتا تھا کہ ہم بہت کچھ سیکھ جائیں گے جو ہمارے تبدیل شدہ رویوں سے ظاہر ہو گا‘ مگر آج جب دنیا کو ایک بار پھر اس وبا کا خطرہ درپیش ہے ایسا نہیں لگتا کہ ہماری سوچ اور طرز عمل میں اس سے کوئی خاص فرق پڑا ہے؛ چنانچہ ہر چند ماہ بعد کورونا کا ایک نیا ویری اینٹ ہم انسانوں کا امتحان لینے کو آ دھمکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement