بچوں میں غذائی کمی: سنٹرز کا قیام
ایک خبر کے مطابق حکومت نے بچوں میں غذائی کمی ختم کرنے کے لیے پس ماندہ اضلاع میں 50 سنٹرز قائم کیے ہیں۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔ وزیر اعظم عمران خان مختلف مواقع پر اپنی تقاریر میں بچوں میں غذائیت کی کمی کے ایشو کو اجاگر کر چکے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ انہوں نے اس مسئلے کے حل پر توجہ مبذول کی ہے۔
یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ بچے نشوونما میں انحطاط کا شکار ہیں جبکہ دس میں سے آٹھ بچے وہ غذا نہیں حاصل کر پا رہے جو انہیں ملنی چاہیے۔ اسی طرح 40 فیصد بچے وٹامن ڈی اور زنک کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 62 فیصد میں خون کی کمی ہے۔ یہ سب غذا کی قلت کی وجہ ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے کی ذہنی اور جسمانی گروتھ رک جاتی ہے اور وہ ایک صحت مند فرد نہیں بن پاتا۔
وزیر اعظم کی معاونِ خصوصی برائے سماجی تحفظ و تخفیفِ غربت سینیٹر ثانیہ نشتر کا کہنا ہے کہ غربت‘ ناخواندگی‘ کم عمری کی شادی اور بچوں میں بیماریوں جیسے عوامل نشوونما میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔ تجویز یہ ہے کہ اس پروگرام کا ایک دوسرا مرحلہ بھی رکھا جائے جس میں ان عوامل پر قابو پانے کا ہدف مقرر کیا جائے جو بچوں میں غذائی کمی کا باعث بنتے ہیں۔