جانوروں سے بد سلوکی
مظفرآباد میں دریائے نیلم کے کنارے سے زخمی حالت میں ریسکیو کی گئی نایاب مادہ تیندوا کی موت نے ہمارے معاشرے میں جانوروں سے بدسلوکی کے باب میں اضافہ کیا ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس سے جانوروں کی مظلومیت کا احساس اجاگر ہوتا ہو۔ اس سے قبل اسلام آباد کے ایک چڑیا گھر میں لگنے والی آگ میں شیروں کی جوڑی کا زندہ جل جانا، کاون ہاتھی کو زخمی حالت میں ملک سے باہر بھیجنا اور کراچی کے ایک چڑیا گھر میں نایاب سفید شیر کی موت ایسے نمایاں واقعات ہیں جن سے جانوروں سے بدسلوکی کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ جانور چڑیا گھر میں ہوں یا جنگلوں میں‘ دل لگی کیلئے ان کو تنگ کرنا‘ پتھرائو کرنا اور لاٹھیوں‘ ڈنڈوں سے تشدد کرنا عام بات سمجھی جاتی ہے۔ حالیہ واقعے میں تیندوے پر تشدد کرنے کے بعد اسے گولیاں مار کر زخمی کیا گیا تھا۔
اسے علاج کیلئے اسلام آباد منتقل کیا گیا مگر ریڑھ کی ہڈی شدید متاثر ہونے کے سبب اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس واقعے سے ملک میں معدوم ہوتی وائلڈ لائف کے تحفظ کے لیے اقدامات کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے‘ نیز بقائے باہمی اور سماجی ذمہ داریوں کا شعور اجاگر کرنے اور مذہبی تعلیمات کو عام کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ دینِ اسلام میں انسانوں کے ساتھ جانوروں یا درختوں اور پودوں کو بھی بلاضرورت نقصان پہنچانے کی سختی سے ممانعت ہے۔