اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بدعنوانی میں اضافہ اور حکومتی دعوے

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 180 ممالک کا کرپشن پرسیپشن انڈکس (سی پی آئی) جاری کیا ہے جس کے مطابق گزشتہ برس بد عنوانی میں پاکستان 16 درجے اوپر چلا گیا۔ اس کا درجہ 180 ممالک کی فہرست میں 140ویں نمبر پر رہا۔ 2021ء میں پاکستان کا سی پی آئی سکور 28 رہا جبکہ 2020ء میں سی پی آئی سکور 31 تھا اور کرپشن کے لحاظ سے 180 ممالک میں پاکستان 124ویں نمبر پرتھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈکس میں صفر سے 100 تک کے سکیل پر ممالک کی بد عنوانی کو ظاہر کیا جاتا ہے کہ کسی ملک کے کاروباری لوگوں اور مختلف پیشہ ورانہ امور کے ماہرین کی نظر میں وہاں کے سرکاری ادارے کس درجہ بد عنوان ہیں۔ جس ملک کا سکور جتنا زیادہ ہے وہ اسی قدر شفاف مانا جاتا ہے۔

کرپشن پرسیپشن انڈکس کی یہ تعریف بڑی واضح ہیں اور دنیا بھر میں اسی تناظر میں اسے لیا جاتا ہے مگر وطن عزیز کے وزرا‘ جو بد عنوانی کو کم نہیں کر سکے‘ سی پی آئی کے مفہوم کو تبدیل کر دینا چاہتے ہیں۔ سی پی آئی سکور میں گراوٹ وزیر اعظم کے شفافیت کے بیانیے کے لیے یقینا ایک بڑا دھچکا ہے۔ موجودہ حکومت کے بنیادی ایجنڈے میں بد عنوانی کا خاتمہ سر فہرست تھا‘ مگر عالمی سطح پر مانے ہوئے شفافیت کے اشاریے جو کچھ دکھا رہے ہیں وہ باعثِ تشویش ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنے ایجنڈے کے مرکزی خیال کو عملی صورت نہیں دے سکی‘ یوں کرپشن پرسیپشن انڈکس پچھلے قریب پانچ برس کی نچلی ترین سطح پر ہے۔

ہمارے پاس اس کا یہ مطلب لینے لے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ملک میں بد عنوانی ان برسوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ یہ صورت حال حکومت کے لیے آئینہ ہے‘ جس نے زبانی دعووں کی حد تک بد عنوانی کے خاتمے کے بڑے معرکے مارے مگر عوامی سطح پر جو تاثر موجود رہا وہ بد عنوانی میں اضافے کا تھا‘ اب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے جس کی تصدیق کر دی ہے۔ حکومت کے دعووں اور عمل میں یہ خلیج حیرت کا سبب ہے۔ حکومت آج بھی اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہے کہ بد عنوانی میں وطن عزیز اس وقت گزشتہ کئی سال کے بلند مقام پر کھڑا ہے۔ حکمرانوں کے بیان دیکھیں تو وہ حسب روایت دفاعی بیانیے اور جواز پر مبنی ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ فنانشل کرپشن نہیں قانون کی حکمرانی اور سیاسی کرپشن کی وجہ سے سکور کم ہوا‘ حالانکہ کرپشن پرسیپشن انڈکس جاری کرنے والا ادارہ ہرگز یہ نہیں کہتا کہ پاکستان کے سکور میں یہ گراوٹ مالی بد عنوانی کی وجہ سے نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔

اگرچہ قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا بھی مالی کرپشن کے راستے کو وسیع کر دیتا ہے۔ کسی سماج میں بد عنوانی کے خاتمے کی جدوجہد قانونی کی حکمرانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی بد عنوانی ختم کرنے کے جو دعوے کئے تھے قانون کی حکمرانی ان اقدامات کا لازمی حصہ تھی اور اسے عملی صورت دینے کی ذمہ داری حکومت پر تھی‘ مگر شفافیت میں کمی کے اشاریے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ حکومت نے اپنے اس مینڈیٹ کو پورا نہیں کیا۔ قانون کی حکمرانی کے نفاذ کے لیے جو کچھ کرنے کی ضرورت تھی‘ نہیں کیا گیا۔ یوں پاکستان کو ماضی سے زیادہ بد عنوانی کا مسئلہ در پیش ہے اور بد عنوانی میں پاکستان موریطانیہ‘ میانمار اور ازبکستان کے برابر کھڑا ہے۔ اس سکور پر خطے کے دیگر ممالک کو دیکھا جائے تو بنگلہ دیش کے سوا پاکستان جنوبی ایشیا کے دیگر سب ممالک سے پیچھے ہے۔ بھارت کا کرپشن پرسیپشن انڈکس 40 ہے‘ سری لنکا کا 37 اور نیپال کا 33۔ بد عنوانی کا تاثر کسی ملک کی معیشت کے لیے بھی بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔

خاص طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری کے فیصلوں میں بد عنوانی کا عنصر شدید مزاحم ہوتا ہے اس لیے یہ بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ سال بہ سال سی پی آئی کا گرتا ہوا سکور ہمارے صنعتی ترقی کے خوابوں کو کھوٹا کرتا رہے گا۔ باہر کے کسی آدمی کو سرمایہ کاری کرنی ہو تو ہر ذی شعور بد عنوانی پر شفافیت ہی کو ترجیح دے گا۔ اس حقیقت کو ہمارے حکمران اقتدار کے چوتھے برس میں بھی قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ خامی‘ کوتاہی یا ناکامیوں کا احساس ہو جائے تو اصلاح کی صورت پیدا ہونے کی توقع بھی کی جا سکتی‘ مگر کوئی تسلیم ہی نہ کرے اور حیلے بہانے سے کام چلانے کا عادی ہو تو اصلاح کے نقطۂ آغاز کی گنجائش ہی کہاں پیدا ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بد عنوانی سماج کی سب سے بڑی دشمن ہے‘ بلکہ یہ ایسی دیمک ہے جو ریاست کے وجود کو کھوکھلا کرتی ہے۔

عمران خان صاحب اسی ویژن کے ساتھ حکومت میں آئے تھے اور انہوں نے عوام کو مستقبل کی جو برائٹ پکچر دکھائی تھی اس میں بد عنوانی کا خاتمہ بنیادی جزو تھا‘ مگر نظام کے ریشوں میں اُتری ہوئی بد عنوانی کے خاتمے کے لیے حکومت نے کیا کیا؟ اس سوال کے جواب میں حکومت کچھ ادھورے مقدموں اور چند درجن افسروں کے تبادلوں کے سوا کیا پیش کر سکتی ہے؟ کس بد عنوان کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا؟ کسی سے لوٹی ہوئی دولت پر سودے بازی کر لینا کوئی بڑی کامیابی نہیں۔ ریاست کا کام کسی خائن کے ساتھ حصہ طے کرنا نہیں جرائم کا راستہ روکنا ہے اور اس کے لیے عبرت انگیز نظائر بعد اوقات ضروری ہو جاتے ہیں۔ بد عنوانی کی مکمل بیخ کنی اسی طرح ممکن ہے۔ اس رپورٹ میں حکمرانوں کے سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement