اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیاست میں غیر سیاسی طرزِ عمل

گزشتہ روز ملک کے معاشی حب کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے نکالی گئی ریلی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گیا اور لاکھوں شہری اپنی گاڑیوں میں پھنس کر رہ گئے۔ جماعت اسلامی پہلے ہی شہر میں دھرنا دیے بیٹھی ہے؛ چنانچہ بدھ کے روز شہر کا پورا نظام درہم برہم رہا۔ اس دوران نہ تو انتظامی حکمتِ عملی دیکھنے میں آئی اور نہ ہی کوئی سیاسی حکومت دکھائی دی جو معاملات کو سلجھاتی اور حالات کو قابو سے باہر ہونے سے بچاتی بلکہ ایم کیو ایم کی جانب سے نکالی گئی ریلی پر پولیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج سے صورت حال مزید بگڑ گئی۔ درجنوں خواتین و حضرات کے ہمراہ ممبر سندھ اسمبلی صداقت حسین بھی سر پھٹنے سے زخمی ہوئے جنہیں اسی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔

ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کے مطابق پولیس تشدد کی وجہ سے سابق ٹاؤن ناظم حنیف سورتی کی آنکھ ضائع ہو گئی جبکہ صداقت حسین آئی سی یو میں زیرِ علاج ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے درجنوں سیاسی کارکنان اور رہنمائوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ سیاسی معاملات کو طاقت سے حل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سارا دن ملک کا سب سے بڑا شہر میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرتا رہا۔ جو کچھ گزشتہ روز کراچی میں ہوا‘ اس حوالے سے ہر کوئی اپنے اپنے موقف پر ڈٹا ہوا اور اسے درست ثابت کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ایم کیو ایم رہنمائوں کے بقول پولیس کے لاٹھی چارج اور شیلنگ سے معاملات بگڑے اور کارکنان منتشر اور مشتعل ہو گئے جبکہ صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا تھا کہ صورت حال ایسی بن گئی تھی کہ مجبوری میں انتظامیہ کو ایکشن لینا پڑا۔ اب ایم کیو ایم کی جانب سے یومِ سیاہ منانے اور تاجروں‘ ٹرانسپورٹرز سے ہڑتال کی اپیل کی گئی ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی 27 فروری سے بلاول ہائوس کے باہر پڑائو ڈالنے اور جمعہ کو پانچ مقامات پر دھرنا دے کر شہر کی پانچ شاہراہوں کو بند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور ان معاملات پر تدبر کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو لگتا ہے کہ یہ معاملہ مزید طول پکڑے گا۔

یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان سپر لیگ کے سیزن 7 کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور آج (بروز جمعرات) نیشنل سٹیڈیم میں کراچی کنگز اور ملتان سلطان کا ابتدائی میچ کھیلا جانا ہے۔ اس وقت بہت سے غیر ملکی کھلاڑی بھی پاکستان کے سب سے بڑے سپورٹس ایونٹ میں شرکت سے غرض سے کراچی میں مقیم ہیں اور اسی لیے شہرِ قائد میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ ایسے حساس معاملات کے باوجود ایسے واقعات کا رونما ہونا انتظامی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ اگر بہتر انتظامی حکمتِ عملی اپنائی جاتی تو جو کچھ ہوا‘ اسے وقوع پذیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ معاملات کے پس منظر میں جا کر دیکھا جائے تو تین ہفتوں سے زائد عرصے سے جاری جماعت اسلامی کے دھرنے اور ایم کیو ایم کی ریلی کا مقصد سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں حال ہی میں کی گئی ترامیم کے خلاف آواز بلند کرنا تھا جو ان کے خیال میں مناسب نہیں ہیں۔

اس حوالے سے سندھ اسمبلی میں بھی ہنگامہ آرائی ہو چکی ہے۔ اسے بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں اب تک سیاسی معاملات کو سیاسی ایوانوں میں حل کرنے کا رجحان تقویت نہیں پا سکا اور ہر کچھ عرصے کے بعد کسی تنظیم‘ کسی سیاسی جماعت کو اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج‘ ریلیوں اور دھرنوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اگر اس پر بھی شنوائی نہ ہو تو معاملات کو عدالتوں میں لے جا کر نظامِ عدل کے بوجھ میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ کراچی میں بھی یہی طرزِ عمل مشاہدے میں آ رہا ہے اور جماعت اسلامی کی جانب سے نئے بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے جس پر عدالتِ عالیہ نے مختصر سماعت کے بعد چیف سیکرٹری سندھ، صوبائی حکومت اور دیگر کو نوٹسز جاری کر دئیے تھے۔ اگر یہ معاملہ سیاسی ایوان یعنی صوبائی اسمبلی میں حل کیا جاتا اور گفت و شنید کا راستہ اپنایا جاتا تو نہ یہ معاملہ عدالتوں میں جاتا اور نہ ہی ریلیوں‘ دھرنے کی نوبت آتی۔

ایک تازہ خبر یہ ہے کہ شہرِ قائد میں جماعتِ اسلامی اور سندھ حکومت کے مابین بیک ڈور مذاکرات میں اہم ترین پیش رفت ہوئی ہے اور ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے بعض اہم بلدیاتی ادارے میئر کے ماتحت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ پیش رفت خوش آئند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہی اقدام کچھ وقت پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا یا ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ نہیں ہو سکتا تھا تاکہ نوبت اس نہج تک نہ پہنچتی کہ لاٹھی چارج ہوا اور آنسو گیس بھی استعمال کی گئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن سیاسی معاملات کو سیاسی نہیں رہنے دیتے بلکہ انہیں ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ڈیڈ لاک کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس میں کوئی بھی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا اور نتیجہ تصادم کی صورت میں نکلتا ہے۔

سیاسی ایشوز اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے سیاسی فورمز یعنی قومی و صوبائی اسمبلیاں موجود ہیں‘ بہتر ہے کہ انہی میں بیٹھ کر ان ایشوز کا حل نکالا جائے۔ سڑکوں پر فیصلوں سے فضا تو مکدر ہوتی ہی ہے‘ یہ جگ ہنسائی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 27فروری سے اور پی ڈی ایم نے 23 مارچ سے مہنگائی کے خلاف مارچوں کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے ابھی ٹینشن پیدا ہو رہی ہے۔ آگے جا کر حالات پتا نہیں کیا رخ اختیار کریں۔ مشورہ وہی ہے کہ سیاسی مسائل سیاسی انداز میں حل کیے جائیں تاکہ امن و امان کی صورتحال مخدوش نہ ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement