اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

نظامِ انصاف اور قانون کی حکمرانی

فوجداری قانون اور نظام انصاف میں اصلاحات کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ روز وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان اصلاحات کا مقصد طاقتور آدمی کو قانون کا تابع بنانا اور عام آدمی کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ انصاف‘ ریاست اور سماج کے نظام میں توازن قائم رکھنے کی بنیادی شرط ہے۔ ریاست کا مقصد اپنے شہریوں کیلئے قوانین‘ قواعد اور ضوابط کے ذریعے ایسا ماحول تشکیل دینا ہے جس میں ہر شہری اپنی صلاحیتیں بہترین طور پر بروئے کار لا سکے اور اسے جینے کیلئے تحفظ اور اطمینان میسر ہو۔ مضبوط نظامِ عدل ریاست میں ان بنیادی شرائط کو یقینی بناتا ہے۔ جن ممالک میں نظامِ عدل مثالی ہے وہاں انسان اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے بہ نسبت ان ممالک کے جہاں نظام عدل مفلوج ہے۔ ایسے معاشرے شکستہ‘ غیر متوازن اور غیر محفوظ ہیں اور انسانی بقا اور ترقی کی ضمانت دینے میں وہ ریاستیں ناکام ہیں جہاں قانون کی حکمرانی نہیں۔ ریاست اور شہری کے تعلق میں عدل قوتِ جاذبہ ہے۔ وزیر اعظم ریاستِ مدینہ کے نظام کا حوالہ دیتے ہیں‘ اور یہ واضح ہے کہ ریاست مدینہ میں عدل کا تصور کس درجۂ کمال کو پہنچا ہوا تھا۔

اگر ہم اپنے ملک کے حالات کو دیکھیں تو قانون کی حکمرانی کے حالات نا گفتہ بہ ہیں۔ ظاہر ہے اس کی متعدد وجوہ ہیں‘ مگر کوئی جامع حل پیش کرنے کے بجائے مختصر اقدامات کیے جاتے رہے جن کا کوئی فائدہ سامنے نہیں آ سکا۔ نتیجتاً قانون کی حکمرانی کی صورت حال میں پاکستان جنوبی ایشیا میں نچلی ترین سطح پر آ گیا ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے رُول آف لاء انڈیکس 2021ء کے مطابق 139 ممالک میں پاکستان 130ویں نمبر پر رہا۔ جنوبی ایشیا کے چھ ممالک میں ہم پانچویں نمبر تھے۔ ہمارے بعد افغانستان آتا ہے‘ اور یہ سوچنے اور شرمندہ ہونے کا مقام ہے کہ ہم قانون کی حکمرانی میں اس ملک کے برابر کھڑے ہیں جہاں پچھلے چالیس برس سے کشیدگی ہے اور کبھی حکومت پائیدار بنیادوں پر قائم نہیں ہو سکی۔ پاکستان اس کے برعکس ایک آزاد‘ خود مختار اور مضبوط ملک ہے جس کے سرکاری ادارے ریاست کے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے کے بھرپور وسائل رکھتے ہیں۔

اس کے باوجود وہ کیا عوامل ہیں جو ہمیں رُول آف لاء کے اعتبار سے اس خطے کے دیگر ممالک سے بھی پسماندہ دکھاتے ہیں‘ اس کا تعین کرنا حکومت‘ اداروں‘ دانش مندوں اور عوام کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں من حیث القوم جن مسائل کا سامنا ہے ان میں بد عنوانی‘ غربت‘ جہالت‘ وسائل سے محرومی اور اوپر سے نیچے تک ناانصافی بنیادی مسائل ہیں۔ یہ سبھی مسائل مجموعی طور پر قانون کی حکمرانی کے فقدان کا نتیجہ ہیں؛ چنانچہ قانون کی حکمرانی بطورِ قوم ہمارے لیے ایک ایسا نسخہ ہے جو ہمیں قومی سطح پر خوفناک مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا علاج ہے جو ہمارے جملہ قومی عوارض کا حل ہے۔ کرپشن‘ لوگوں کو ان کے حق سے محروم کرنا‘ جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ‘ غربت اور مہنگائی ایسے مسائل سوشل فیبرک کو تار تار کر رہے ہیں۔ ان مسائل کو حسبِ سابق قالین کے نیچے چھپانے سے کام نہیں چل سکتا۔ ماضی میں ہو سکتا ہے حکومتوں اور اداروں کیلئے یہ حکمت عملی کارگر رہی ہو مگر حالیہ چند برسوں میں ذرائع ابلاغ کے انقلاب نے عوام کو جس طرح ایک دوسرے سے قریب کیا ہے‘ سماجی سطح پر ناانصافی کے واقعات سے نمٹنے اور ایک متوازن سماج قائم کرنے میں تاخیر کی مزید گنجائش نہیں۔

حکومتیں اور ادارے اس معاملے میں اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننے اور عمل کرنے میں جتنی دیر لگائیں گے‘ پاکستان کو اس کینسر سے پاک کرنے کیلئے اتنی بڑی قربانی دینا پڑے گی۔ پاکستان کو اپنی 65 فیصد نوجوان آبادی کیلئے روزگار کے مواقع درکار ہیں‘ جو معاشی اور صنعتی ترقی کے بغیر ممکن نہیں جبکہ ایک ایسا ملک جو رُول آف لاء میں خطے کے چھ ممالک میں سے پانچویں نمبر پر ہے غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے اس کا پُرکشش ثابت ہونا اچنبھا ہو گا۔ معاشی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ بدعنوانی‘ ناانصافی اور جرائم سے محفوظ ماحول ہو جس میں باہر سے آ کر سرمایہ کاری کرنے والا اپنی جان اور سرمائے کو محفوظ سمجھے۔ اگر آپ کی حکومت اور اداروں کو کسی غیر ملکی سرمایہ کار کو پوری کوشش کرکے یہ یقین دلانا پڑے کہ اس کیساتھ فراڈ نہیں ہو گا‘ سرکاری اہلکار اس سے رقوم اینٹھنے کیلئے اس کے کام میں رکاوٹیں نہیں ڈالیں گے اور جرائم پیشہ افراد کے گروہ اس سے بھتہ وصول کرنے کیلئے اس کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے‘ وہاں معاشی ترقی کا خواب کیونکر شرمندہ تعبیر ہو؟ پاکستان کو مضبوط نظامِ عدل اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے صحیح معنوں میں جنگی رفتار سے کام کی ضرورت ہے‘ اور یہ کام اسی صورت نتیجہ خیز ثابت ہوگا جب حکومت کے علاوہ دیگر ریاستی فریق بھی اس کی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے اس کیلئے کردار ادا کرنے میں مخلص ہوں۔

ہمارے ہاں قوانین کا مسئلہ نہیں قوانین پر عمل درآمد کا بحران مسئلے کی جڑ ہے۔ سزاؤں کی حد تک دیکھا جائے تو ہمارے قوانین سخت سزاؤں پر مبنی ہیں مگر جرائم کی شرح دنیا کے پسماندہ ترین ممالک جیسی ہے‘ کیونکہ قوانین کی عملداری کے مسائل حد سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ضابطہ فوجداری میں اصلاحات کو حکومت اپنا بڑا کارنامہ قرار دیتی ہے مگر ان دعووں کی تصدیق ان اصلاحات کے نتائج سے مشروط ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کا یہ اقدام کس حد تک نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement