آئی ایم ایف کی شرائط کی قیمت
آئی ایم ایف کے مشن کے ساتھ حکومتی مذاکرات کا پہلا دور‘ جو تکنیکی معاملات پر مبنی تھا‘ جمعے کے روز مکمل ہو گیا جبکہ دوسرا اور حتمی دور جسے پالیسی مذاکرات قرار دیا گیا ہے ‘ پیر کے روز سے شروع ہو گا۔ان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قریب ایک ارب ڈالر کی قسط جاری ہو گی جس کی زرِمبادلہ کی موجودہ تشویشناک صورتحال میں اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔تاہم آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بجا طور پر تشویش کا موجب ہیں اور عام آدمی سے لے کر معاشی ماہرین اور حکومتی حلقوں تک ان شرائط کی سخت گیر نوعیت پر پریشانی پائی جاتی ہے۔یہ خبریں گردش میں ہیں کہ آئی ایم ایف کم سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ملنے والی رعایت ختم کرنے کا بے لچک مطالبہ کر چکا ہے ‘ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں بھی ایک فیصد اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی کی شرح میں بھی بیس سے تیس روپے فی لٹر اضافہ کرنا ہو گا یا جنرل سیلز ٹیکس‘ جو ابھی تک پٹرولیم مصنوعات پر لاگو نہیں‘ اٹھارہ فیصد کے حساب سے لاگو کرنا پڑے گا۔ حکومتی ٹیکس اور نان ٹیکس آمدنی بڑھانے کیلئے تجویز کئے گئے ان اقدامات کی سیاسی اور سماجی قیمت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ واضح ہے کہ اضافی ٹیکسوں کے نفاذ سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا ‘ جو پہلے ہی27.5 فیصد کی شرح کے ساتھ قریب نصف صدی کی بلند ترین سطح پر ہے۔تاہم بجلی‘ تیل اور گیس کے نرخوں میں اضافہ معاشی نمو کے امکانات میں مزید کمی کا سبب بنے گا ‘ نتیجتاً بے روزگاری جو مہنگائی کی طرح پہلے ہی بلند ترین سطح پر ہے‘ مزید بڑھے گی۔ آئی ایم ایف کی نئی اور کڑی شرائط کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے سماجی اور سیاسی مضمرات کو سمجھنا مشکل نہیں۔روپے کی قدر میں گراوٹ اور قوتِ خرید میں کمی لازم و ملزوم ہے کیونکہ توانائی‘ خوراک‘ ادویات اور دیگر بہت سی ضروریاتِ زندگی کے نرخ روپے کی شرحِ مبادلہ میں کمی کے ساتھ بڑھ جاتے ہیں‘دوسرے لفظوں میں روپے کی گراوٹ غربت میں اضافے کا سبب ہے۔ خط غربت کی مسلمہ شرح 1.90 ڈالر کو مد نظر رکھا جائے تو روپے کی قدر میں حالیہ ایک ماہ کے دوران قریب پچاس روپے فی ڈالر گراوٹ سے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے شہریوں کی تعدادمیں یقینی اضافہ ہوا ہے۔ مگر یہاں صرف شرحِ مبادلہ کا فرق لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی کا سبب نہیں بلکہ گرتی ہوئی صنعتی سرگرمیاں اور معاشی سرگرمیوں کا تنزل ‘بیروزگاری میں اضافہ جس کا بدیہی نتیجہ ہے ‘ غربت میں اضافے کا سب سے بڑا فیکٹر ہے۔ یہاں ہمیں صرف ایک شعبے میں بیروزگاری کے اعدادوشمار دستیاب ‘ جو بلا شبہ چونکا دینے والے ہیں۔ یہ شعبہ ملکی معیشت کا سب سے اہم پہیہ اور برآمدات کا سب سے بڑا حصہ دار‘ ٹیکسٹائل ہے جس کے نمائندہ صنعتکاروں نے ٹھیک ایک ماہ پہلے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ تہلکہ خیز انکشاف کیا تھا کہ ٹیکسٹائل اور اس سے وابستہ صنعتوں میں قریب 70 لاکھ افراد بیروز گار ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال صرف ٹیکسٹائل کی صنعت تک محدود نہیں کیونکہ دیگر شعبوں کے کارخانے بند ہونے کی سلسلہ وار خبریں بھی اب تقریباً معمول بن چکی ہیں‘ اورجہاں کارخانے بند ہو رہے ہیں وہاں کارکنوں کی بیروزگاری بعید از قیاس نہیں۔ غربت میں اضافے کی یہ خوفناک صورتیں سماجی انتشار کا سبب بنتی ہیں اور ان کی سیاسی قیمت بھی ہوتی ہے‘ مگر بدقسمتی سے اتحادی حکومت اس صورتحال کا پیشگی اندازہ لگانے اور اس سے بچاؤ کی کوئی صورت پیش کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ حکمران بڑی آسانی سے سخت فیصلوں کے اثرات کی ذمہ داری عالمی مالیاتی ادارے پر ڈال کر یا سابقہ ادوار کی کوتاہی کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں مگر اس صورتحال کا جو بوجھ عوام پر پڑتا ہے‘ اس کے اثرات کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟