اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پرویز مشرف کا سانحۂ ارتحال

پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا طویل علالت کے بعد 79 برس کی عمر میں دبئی میںانتقال یقینا ایک قومی نوعیت کا سانحہ ہے۔ وہ کئی برسوںسے متحدہ عرب امارات میں زیرِ علاج تھے۔ آج (پیرکو) ایک خصوصی طیارے کے ذریعے ان کی میت وطن واپس لائی جائے گی اور کراچی میں ان کی تدفین ہو گی۔ وزیراعظم‘ صدرِ مملکت‘ چیئرمین سینیٹ‘ سیاسی و سماجی حلقوں اور غیر ملکی سفرا کے علاوہ آئی ایس پی آرنے بھی مسلح افواج کی جانب سے پرویز مشرف کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ 11 اگست 1943ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے پرویز مشرف کا خاندان 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ مرحوم صدر نے کراچی کے سینٹ پیٹرک ہائی سکول اور بعد ازاں ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ 1961ء میں انہوں نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں حصہ لیا۔ 1998ء میں پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر تعینات ہوئے اورنومبر 2007ء تک اس اہم عہدے پر فائز رہے۔ 2001ء میں وہ پاکستان کے 10ویں صدر بنے۔ 29 نومبر 2007ء کو انہوں نے دوسری مدت کے لیے صدر کا حلف اُٹھایا لیکن اس عہدے پر زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہ سکے اور 18 اگست 2008ء کو مستعفی ہو کر وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ اپنے دورِ اقتدار میں پرویز مشرف نے امریکہ اور بھارت سمیت تمام ممالک سے بہتر تعلقات کی پالیسی اپنائی اور نائن الیون کے سانحے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار نبھایا۔ اپنے دور حکومت میں پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی بھی کوشش کی اور اسی دوران لائن آف کنٹرول پر فائربندی کا تاریخی معاہدہ طے پایا۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھی ان کی سیمابی طبیعت نے انہیں کافی متحرک رکھا اور وہ مختلف ملکوں کی یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے لگے‘ اس دوران انہوں نے ایک سیاسی جماعت بھی بنائی؛ تاہم وہ قابلِ ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ 2013ء میں پرویز مشرف وطن واپس آئے؛ تاہم 2016ء میں وہ علاج کی غرض سے دبئی چلے گئے۔ گزشتہ برس جون میں انکے اہلِ خانہ نے ان کی بیماری سے متعلق بتایا تھا کہ وہ خرابیٔ صحت کے اس مرحلے میں ہیں جہاں صحت یابی ممکن نہیں اور ان کے اعضا کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔ پرویز مشرف کا دورِ اقتدار ہنگامہ خیزی اور غیر معمولی فیصلوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ جہاں ایک طرف کارگل جنگ‘ نواز حکومت کا تختہ اُلٹنے اور خود کو باوردی صدر بنوانے سے لے کر افغان جنگ میں شمولیت اور ایمرجنسی کا نفاذ ان کے دور کے متنازع اقدامات رہے ہیں‘ وہیں دوسری طرف ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگانے والے کمانڈو صدر کا دور مستحکم معیشت‘ طاقتور بلدیاتی نظام اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔الغرض پرویز مشرف ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ادرہ مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے دعاگو اور پسماندگان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement