اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاکستان کی جیت

اولمپک چیمپئن ارشد ندیم نے جیولن تھرو میں تاریخ رقم کر دی اور 40 سال بعد ملک کو گولڈ میڈل کی خوشی سے ہم کنار کیا۔ اولمپکس کی تاریخ میں سب سے لمبے فاصلے‘ 92.97 میٹر کی تھرو کرکے ارشد ندیم نے ایک الگ ریکارڈ اپنے نام کر لیا ہے۔ 91.79 میٹر تک نیزہ پھینک کر اولمپکس کی دوسری بہترین تھرو کا ریکارڈ بھی انہی کے نام ہے۔وہ انفرادی مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتنے والے پہلے پاکستانی ایتھلیٹ بھی بن گئے ہیں۔ اس سے قبل پاکستان نے تینوں گولڈ میڈل ہاکی کے مقابلوں میں جیتے تھے ۔ آخری گولڈ میڈل 1984ء جبکہ آخری اولمپکس میڈل 1992ء میں جیتا تھا۔یوں 32سال بعد اولمپکس مقابلوں میں میڈل جیت کر ارشد ندیم نے کھیلوں کے حوالے سے جمود کو توڑا ہے اور یہ عمل بہت سے نئے ایتھلیٹس کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے گا۔ اس شاندار کامیابی پر وزیراعظم ‘ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور سیاسی و سماجی رہنماؤں کی جانب سے ارشد ندیم کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا اور ان کیلئے بھاری انعامات کے اعلان کیے گئے ہیں۔ ارشد ندیم کا میڈل جیتنے کا سفر آسان نہ تھا۔اولمپکس مقابلوں سے دو ماہ پہلے تک وہ عالمی معیار کے اپنے اکلوتے جیولن کی خستہ حالی پر پریشان تھے اور حکومت سے نئے جیولن کا مطالبہ کر رہے تھے۔ان حالات کا سامنا اُس ایتھلیٹ کو کرنا پڑا جو انفرادی حیثیت میں نہ صرف ملک کیلئے سب سے زیادہ تمغے جیت چکا ہے بلکہ 2019ء میں 86.29 میٹرز تھرو کے ساتھ ساؤتھ ایشین گیمز اور 2022ء میں 90.18 میٹرز کی تھرو کے ساتھ کامن ویلتھ گیمز میں عالمی ریکارڈ بھی قائم کر چکا ہے۔ گولڈ میڈل جیتنے کے بعد ایک انٹرویو میں ارشد ندیم کا عالمی سطح کی سہولتیں میسر نہ ہونے کا گلہ اربابِ اختیار کی آنکھیں کھولنے کو کافی ہونا چاہیے۔ اگر ارشد ندیم کے دیگر حریفوں کی بات کی جائے تو بھارت کے نیرج چوپڑا کو بھارتی حکومت نے گزشتہ سال عالمی معیار کے 177 جیولن فراہم کیے اور یورپی ممالک میں ٹریننگ بھی دلوائی۔ارشد ندیم کی کامیابیوں کے استثنا کے ساتھ ملک میں کھیلوں کی ناگفتہ بہ حالت محتاجِ بیان نہیں۔ اولمپک ایسوسی ایشن‘ پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ کی رسہ کشی کا اس میں بڑا عمل دخل ہے۔مگر جب ملک میں عملی طور پر کوئی سپورٹس پالیسی ہی نہ ہو تو گلہ کس سے کریں؟ پاکستان کی آخری سپورٹس پالیسی 2005ء میں نافذ ہوئی تھی۔ 2018ء میں جو سپور ٹس پالیسی تشکیل دی گئی اس پر کھیلوں کی مختلف فیڈریشنز نے اعتراضات اٹھا دیے۔ اپریل 2023ء میں نئی قومی سپورٹس پالیسی کے اجرا کا نوٹیفکیشن جاری ہواجسے 2022ء تا 2027ء نافذ العمل قرار دیا گیا مگر عملاً یہ پالیسی آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد کھیلوں کے حوالے سے زیادہ تر اختیارات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں اور وفاقی سطح پر بین الصوبائی رابطے کی وزارت ان معاملات کو دیکھتی ہے مگر صوبائی وزرائے کھیل کے ساتھ بین الصوبائی رابطے کی وزارت کا اجلاس شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ حکومت کی یہ بے اعتنائی اور اداروں کی باہمی چپقلش متعدد کھلاڑیوں کی پرفارمنس کو گہنا چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے سپورٹس مقابلوں میں 24کروڑ آبادی والے ملک کی نمائندگی صرف سات کھلاڑیوں نے کی۔ ارشد ندیم کی انفرادی جیت پر دعویداری کے بجائے اگر اربابِ حکومت ملک میں ایسا سسٹم بنا دیں جس سے کھلاڑیوں کی صلاحیتیں نکھر سکیں اور وہ عالمی مقابلوں میں بہتر پرفارمنس دکھا سکیں تو یہ ملک کی بڑی خدمت ہو گی۔ ارشد ندیم کی کوشش ‘ محنت اور جذبے کی بدولت اہالیانِ وطن کے چہروں پر خوشی اور لبوں پر جو مسکراہٹ آئی اس کا قرض اتارنے کا یہی مناسب طریقہ ہے کہ باصلاحیت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت تاثر کو اجاگر کر سکیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں