اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

الوداعی آئی ایم ایف پیکیج؟

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے نئے قرض پیکیج کی منظوری کے ساتھ ہی ملکی معیشت پر چھائے بے یقینی کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ قرض پروگرام کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کا پاکستانی حکومت اور عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت بہتر اور مہنگائی کم ہورہی ہے۔ اگرچہ آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ کڑی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں جن میں بجلی بلوں پر سبسڈی کا خاتمہ‘ زرعی آمدن پر ٹیکس کا نفاذ‘ غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کا عدم تعین اور این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی شامل ہیں‘ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس نئے پیکیج سے زرِمبادلہ کے ذخائر اور کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری آئے گی۔ اگر دیگر معاشی اشاریوں پر نظر ڈالیں تو عالمی ادارے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو بہتر قرار دے رہے ہیں‘ شرحِ نمو کے حوالے سے بھی تمام پیش گوئیاں مثبت ہیں۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے‘ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہو رہا ہے اور نئے مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 81 فیصد کمی آئی ہے۔ گزشتہ ماہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ‘ رواں سال میں دوسری بار‘ 750 ملین ڈالر سرپلس رہا۔ لہٰذا ان حالات میں یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ گزشتہ سوا دو‘ ڈھائی برس کی نسبت اس وقت معاشی طور پر ہم بہت بہتر پوزیشن پہ کھڑے ہیں اور معیشت کا یہ منظر نامہ نہ صرف اربابِ حکومت بلکہ ناقدین کی جانب سے بھی قابلِ اطمینان قرار دیا جا رہا ہے‘ تاہم اس کی بنیادیں کس قدر مستحکم ہیں‘ اس پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ماضی قریب میں 2021-22ء کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جون 2021ء میں ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر لگ بھگ 17 ارب ڈالر کی سطح پر تھے مگر جنوری 2023ء میں‘ محض ڈیڑھ سال کے عرصے میں یہ تین ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کمزور ستونوں پر ایستادہ ہے اور تغیر پذیر عالمی صورتحال‘ داخلی وسیاسی استحکام‘ سماجی حالات اور امنِ عامہ کی صورتحال معیشت پر ہمہ وقت اثر انداز ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا مالیاتی اداروں کے قرض پیکیج جیسے عارضی اقدامات سے وقتی نتیجہ تو برآمد ہو سکتا ہے مگر حقیقی معاشی استحکام میسر نہیں آ سکتا۔ دوسری جانب یہ بھی ایک بیّن حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض معاشی اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ کے لیے نہیں بلکہ بیرونی ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے میں استعمال ہو گا‘ ایسے میں مستحکم معیشت کی منزل کا خواب ہنوز تشنہ تعبیر ہی رہے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس آئی ایم ایف پروگرام کو آخری پروگرام بنانا ہے تو سٹرکچرل اصلاحات کرنا ہوں گی‘ مگر سوال یہ ہے کہ یہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ یہ بنیادی طور پر حکومتوں کے کرنے کا کام ہے۔ 1958ء سے اب تک یہ پاکستان کا آئی ایم ایف سے 24واں قرض پروگرام ہے۔ ہر پروگرام کے ساتھ میکرو اکنامک استحکام کے لیے معاشی اصلاحات کے ایک ایجنڈے پر بھی اتفاق کیا گیا مگر ہر بار بنیادی معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کے بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشی بحران کے خاتمے کے بعد ایک نیا بحران ہمارا منتظر ہوتا ہے جبکہ ایک قرض پیکیج کے بعد ایک نئے قرض پیکیج کا حصول ہماری مجبوری بن جاتا ہے۔ اب تو حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ پچھلا قرض اتارنے کے لیے بھی نیا قرض لینا پڑتا ہے۔ جی ڈی پی میں قرض کا حصہ 74فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف پیکیج کو آخری قرار دینا خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب تک حکومت معاشی بنیادوں کو درست کرنے پر سنجیدہ نہیں ہو گی‘ ملک میں سرمایہ کاری اور صنعت کاری کو فروغ نہیں دیاجائے گا‘ حالیہ قرض پیکیج کو الوداعی آئی ایم ایف پیکیج نہیں بنایا جا سکتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں