اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے اثرات

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کی شہادت مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال میں ایک نیا موڑ ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر سے اسرائیلی جارحیت کا ہدف غزہ کا علاقہ تھا جہاں سال بھر سے جاری اسرائیلی حملوں میں 41 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے اور غزہ کا تقریباً تمام شہری ڈھانچہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ غزہ کے بعد وحشیانہ اسرائیلی حملوں کا رُخ مقبوضہ مغربی کنارے کی آبادیوں کی طرف ہو گیا اور گزشتہ ماہ اسرائیل نے مغربی کنارے میں دو دہائیوں سے زائد عرصے میں سب سے بڑے حملے کیے۔ جارحیت کا یہ سلسلہ اب گزشتہ ہفتے سے لبنان تک پھیل چکا ہے‘ جس کی ابتدا الیکٹرانک ڈیوائسز میں نصب بموں کی تخریب کاری سے ہوئی اور جمعہ کے روز حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کی شہادت ان کارروائیوں کا نقطہ عروج ہے۔ اس دوران بیروت کی شہری آبادی پر لگاتار حملوں میں 700 کے قریب افراد شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں حزب اللہ کے بعض کارکن بھی بتائے جاتے ہیں تا ہم شہری آبادیوں پر حملوں میں مسلح افواج سے زیادہ عام شہری لقمہ اجل بنتے ہیں ۔حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں کشیدگی ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جارحیت کا دائرہ لبنان تک پھیلانے سے واضح ہے کہ وہ اس جنگ کو مقبوضہ فلسطین سے آگے تک لے جانے کا خواہش مند ہے۔ قوی امکان ہے کہ ایران اور اس کے اتحادی اسرائیل کی اس مبارزطلبی کو طرح دینے کی کوشش کریں اور اس طرح مشرق وسطیٰ اسرائیل اور اس کے حامیوں کی جانب سے مسلط کی گئی کھلی جنگ کے خطرات سے بچ جائے ‘تاہم اُس خطے میں پراکسی جنگوں کا سلسلہ یقینی طور پر زور پکڑتا نظر آتا ہے۔ سید حسن نصر اللہ کی شہادت حزب اللہ کیلئے یقینا بہت بڑا نقصان ہے تاہم اس مزاحمتی تنظیم کیلئے یہ صورتحال ناگاہ نہیں۔ حزب اللہ کے پاس جدیداسلحے کا غیر معمولی ذخیرہ اور افرادی قوت موجود ہے ؛چنانچہ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف مزاحمتی سر گرمیوں میں نمایاں تیزی خلاف توقع نہیں ہو گی۔ مشرق وسطیٰ میں مزاحمتی قوتوں کا ایک بازو ‘ یمن کی انصار اللہ جماعت کی عسکری قوت بھی قابلِ ذکر ہے ؛چنانچہ یہ امکان موجود ہے کہ آنے والے وقت میں بحیرہ احمر سے سے کر بحیرہ روم تک کے علاقے میں امن کے امکانات پر دیرپا اثرات ہوں۔ اسرائیل اور مزاحمتی تحریکوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بند ہونے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی اور یہ صورتحال مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سلامتی کے ساتھ ساتھ دنیا میں توانائی کی ترسیل کیلئے بھی مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔مشرق وسطیٰ کو بد امنی کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے میں جھونکنے میں عالمی طاقتوں کی ذمہ داری اسرائیل سے کسی طرح کم نہیں۔ واقعات کے پردے ہٹاتے جائیں تو مسائل کی بنیاد تک پہنچنا مشکل نہیں‘ اور مشرق وسطیٰ میں بے امنی کے مسئلے کی بنیاد فلسطین کی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام میں عالمی طاقتوں کی غیر سنجیدگی اور مجرمانہ غیر فعالیت ہے۔ فلسطینی فی الحقیقت اس وقت دنیا میں سب سے مظلوم قوم ہیں جنہیں ایک غاصب اور ظالم رجیم نے اپنی ہی سر زمین پر دربدر کیا ہوا ہے ۔ ایسا کسی صور ت نہ ہوتا اگر یہ جرم کرنے والوں کو مغرب کی غیر مشروط سفارتی حمایت اور دفاعی سرپرستی حاصل نہ ہوتی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ وہی عالمی طاقتیں فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کی اصولی حمایت بھی کرتی ہیں‘ اسرائیلی قبضے کو ناجائز بھی قرار دیتی ہیں ‘ مسئلہ فلسطین کو سفارتی طور پر حل طلب بھی مانتی ہیں مگر اس طرف ہر طرح کی پیش رفت میں اصل رکاوٹ بننے والی صہیونی ریاست کو کسی حل پر آمادہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ فلسطین کا مسئلہ اب فلسطین تک محدود نہیں ۔ مزاحمت اور خطرات کا دائرہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں وسیع سطح پر پھیل چکا ہے

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں