قومی سلامتی اور معاشی سکیورٹی
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کا معاشی سکیورٹی سے براہِ راست تعلق ہے‘ سٹاک ایکسچینج کے ایک لاکھ پوائنٹس عبور کرنے پر سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اسلام آباد میں 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان آہستہ آہستہ درست سمت میں جا رہا ہے‘ معاشی طور پر مضبوط ہونے کی بدولت ہماری نیشنل سکیورٹی از خود بہتر ہو جائے گی۔ وزیراعظم نے قومی سلامتی کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ انکی اصابت ظاہر و باہر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور ہمعصر دنیا کاجائزہ اس حقیقت کی جانب توجہ دلاتا ہے کہ دنیا میں وہی ملک پائیدار ترقی اور قومی سلامتی کو یقینی بنا سکے جو معاشی اعتبار سے بھی مضبوط تھے۔ ہمارے پڑوس میں چین اس حوالے سے ایک نمایاں مثال ہے۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان کے معاشی اشاریے چین سے نسبتاً بہتر تھے اور جس وقت پاکستان عشرۂ ترقی کا جشن منا رہا تھا‘ چین اپنی تاریخ کے بدترین قحط سے نبرد آزما تھا ‘مگر چینی قیادت نے سیاسی استحکام کی بدولت ایسی طویل المیعاد معاشی پالیسیاں مرتب کیں کہ نہ صرف چین آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے بلکہ ایک متبادل سپر پاور کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ آج پاکستان اور چین کا کوئی موازنہ نہیں۔ چین کا ہر شہر آج ایک الگ صنعتی مقام رکھتا ہے‘ مثلاً شینزن‘ جو آبادی کے اعتبار سے لاہور سے بھی چھوٹا ہے‘ اس کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 500 ارب ڈالرز کے قریب ہے جبکہ پاکستان کی کُل جی ڈی پی 380 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ پچھلی دہائیوں سے ہماری معاشی ترقی جو سست روی کا شکار ہے‘ اس کے پیچھے بہت سارے عوامل ہیں‘ جن میں پالیسیوں پر عملدرآمد نہ کرنا نمایاں ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اربابِ اختیار اب ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں اور یہ سبق بھی حکومت نے سیکھ لیا ہے کہ کاروبار کرنا حکومتوں کا نہیں نجی شعبے کا کام ہے اور حکومت اس حوالے سے محض سہولت فراہم کر سکتی ہے۔ ماضی میں ہم خسارے کے شکار اداروں کو رواں رکھنے کیلئے اربوں‘ کھربوں کے فنڈز اور بے پناہ وسائل ضائع کر چکے ہیں‘ اب ان سے جان چھرانے کیلئے انہیں نجی شعبوں کے حوالے کرنا ہی بہتر طریقِ عمل ہے۔ گزشتہ برس ملکی معیشت ڈیفالٹ کے دہانے پر تھی اور مہنگائی کی شرح 40فیصد سے بھی تجاوز کر چکی تھی جبکہ معاشی میدان سے کوئی مثبت خبر سامنے نہیں آ رہی تھی مگر حکومت نے عزم و ہمت سے کام لیتے ہوئے معیشت کو سہارا دیا اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے پلیٹ فورم سے معیشت پر اپنی توجہ مرکوز کی‘ جسکا نتیجہ آج ہمیں مثبت معاشی اشاریوں کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج نے ایک لاکھ پوائنٹس کا سنگ میل عبور کر لیا ہے اور گزشتہ سترہ مہینوں میں سٹاک ایکسچینج میں 150 فیصد بڑھوتری دیکھی گئی ہے۔ اب مہنگائی کی شرح بھی کم ہو کر سنگل ڈیجٹ میں آ چکی ہے۔ یہ سب کچھ بہتر منصوبہ بندی اور وژن کے سبب ہی ممکن ہوا ہے مگر سیاسی عدم استحکام کے معیشت پر اثر انداز ہونے کے خطرے کو تاحال رد نہیں کیا جا سکتا۔ معاشی استحکام کیلئے جس سیاسی استحکام کی ضرورت ہے‘ وہ تاحال مفقود ہے۔ سیاسی قیادت سے جس تحمل‘ رواداری اور اخلاص کی امید کی جاتی ہے‘ وہ اب تک نظر نہیں آ رہا۔ ضروری ہے کہ ملک و قوم کا درد رکھنے والی قیادت آگے بڑھے اور حالات میں بہتری لانے کیلئے تمام سیاسی قیادت کو ایک فورم پر جمع کر کے ایک نئے معاشی و سیاسی میثاق پر اتفاقِ رائے کی سعی کرے۔ سیاسی قوتوں کو بھی چاہیے کہ اپنے گروہی و سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر معیشت کو مشترکہ ترجیح بنائیں۔ درپیش حالات میں قومی سلامتی کیلئے سیاسی جماعتوں کو مل کر بیٹھنا چاہیے تاکہ ملکی سکیورٹی کو مضبوط بناتے ہوئے ملک دشمنوں کو بھی خبردار کیا جا سکے کہ ان کے خلاف پوری قوم متحد و یکجان ہے۔