ٹیکس خسارہ
رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کیلئے ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔ایک خبر کے مطابق جولائی سے نومبر تک ٹیکس خسارہ 356ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا تا ہے کہ دسمبر کے مہینے میں بھی طے شدہ ہدف حاصل نہ ہوسکا تو رواں مالی سال میں ٹیکس کے سالانہ اہداف کے حصول میں مشکلات بڑھ جا ئیں گی۔ اس کا اثر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات پر بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ آئندہ برس کے دوسرے یا تیسرے ماہ آئی ایم ایف ملکی معیشت کا جائزہ لے گا جس کی بنا پر اگلی قسط کی ادائیگی کا فیصلہ ہو گا۔ اس وقت ہمارے ٹیکس نظام کا سب سے بڑا مسئلہ ٹیکس چوری ہے ۔ اس کے لیے حکومت کی جانب سے اقدامات کیے جا رہے ہیں مگر یہ مسئلہ جس قدر گمبھیر ہے اس کا حل یہی ہے کہ معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے اقدامات میں اضافہ کیا جائے اور ٹیکس کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران 4280ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا ہے‘ اس میں سب سے زیادہ ٹیکس‘ 1983ارب روپے‘ انکم ٹیکس کی مد میں جمع کیا گیا‘ جو گزشتہ سال کی نسبت 27فیصد زیادہ ہے۔یہ تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس شرح میں اضافے کی وجہ سے ہے۔تاہم محصولات کی شرح خواہ کتنی ہی بڑھا دی جائے ‘ٹیکس سسٹم کے ڈھانچے کے سقم اور بنیادی خامیوں کو دور کیے بغیر ٹیکس چوری کا خاتمہ ممکن نہیں۔