جمہوری سیاسی اقدار اپنائیں
سال کا آخری مہینہ آن لگا ‘ اس دوران بہت کچھ بدل گیا مگر سیاست کے خدوخال نہ بدلے۔ سال کا آغاز جس ہنگامہ آرائی اور سیاسی جھگڑوں کے ساتھ ہوا تھا وہ بدستور جاری ہیں اور وقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہورہا ہے۔ معاشی اور سماجی ترقی سیاسی توازن اور ہم آہنگی سے مشروط ہے مگر ہمارے ہاں یہ جنس نایاب ہے؛چنانچہ مایوسی اور ناامیدی میں اضافہ فطری ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافات کا پیدا ہونا حیران کن نہیں ہوتا‘ حیرت کا باعث یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اس کا کوئی حل تلاش نہیں کر پارہی۔کسی اتفاقِ رائے تک پہنچنا تو دور کی بات ابھی اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش شروع بھی نہیں ہو ئی۔ سیاسی مفاہمت کے اس خلا کو ہنگامہ آرائی ‘ جلسے جلوس اور تشدد کی سیاست پُر کررہی ہے اور اس سے پاکستان کے بدخواہوں کا کام آسان ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے یوم تاسیس کی موقع پر گزشتہ روز اپنے خطاب میں اس جانب توجہ مبذول کرائی اور سیاسی جماعتوں کو جمہوری اور سیاسی اقدار اپنانے کی جانب متوجہ کیا۔ انہوں نے بجا طور پر یہ کہا کہ معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ صرف معیشت کی بات نہیں سیاسی بے چینی سماجی عدم اطمینان اور بے یقینی میں بھی اضافہ کررہی ہے جو کہ سماجی ربط ضبط کیلئے شدید نقصان دہ ہے۔ قوم کا تصور جس جڑت کا متقاضی ہے وہ صرف سیاسی ہم آہنگی کے ماحول میں پائی جاتی ہے ۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ حکومت کے علاوہ دیگر اہم جماعتیں بھی سیاسی ہم آہنگی کیلئے بروئے کار آئیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ انفرادی سطح پر کئی جماعتیں سیاسی انتشار سے مایوس اور ملکی مفادات پر اس کے منفی اثرات کی شاکی ہیں مگر اس صورتحال کا کوئی اُپائے کرنے میں وہ عملی طور پر متحرک نظر نہیں آتیں۔حکومت کی جانب سے بھی اس سلسلے میں کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومت معاشی استحکام کیلئے جدوجہد کا دعویٰ رکھتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی حالات میں بہتری کے آثار سامنے آ رہے ہیں مثلاً سٹاک ایکسچینج تاریخی بلندیوں پر پہنچ گئی ہے‘ ڈالر کی شرح مبادلہ قابو میں ہے‘ عالمی اداروں کا اعتماد پاکستانی معیشت پر بحال ہو رہاہے‘ پاکستان کے دوست ممالک کی جانب سے معاشی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے فیصلوں میں بھی نمایاں پیش رفت ہو رہی ہے۔ معیشت کے حق میں یہ بہت عمدہ اشارے ہیں ‘ تاہم ایک چیز جو اس منظر نامے کو گہناتی ہے وہ مسلسل سیاسی عدم استحکام ہے۔ معاشی فیصلوں کیلئے سیاسی استحکام کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اس لیے یہ حکومت کے معاشی ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے کا ناگزیر تقاضا ہے ۔ آئے روز کے احتجاج اور ہنگامے ملک کے معاشی منظر نامے پر خاصا منفی اثر ڈالتے ہیں ؛چنانچہ حکومت کو اس کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس کیلئے قومی سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے مؤقف میں حقیقت پسندانہ حد تک لچک پیدا کرلے گی۔بات چیت کے ادوار کا اگر کوئی نتیجہ نہ بھی نکلے تو پھر بھی یہ محنت رائیگاں نہ جائے گی اور سیاسی برف کسی حد تک ضرور پگھلے گی۔ حکومت اور اپوزیشن میں پائی جانے والی دوریاں سیاسی اور ملکی حوالے سے نقصان دہ ہیں۔ رواں ہفتے اسلام آباد میں جو ناخوشگوار حالات پیدا ہوئے یہ اس کی ایک جھلک تھے ۔ کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ ملک عزیز میں ایسے ناخوشگوار حالات دوبارہ پیدا ہوں یا سیاسی اختلاف صوبائی اور قومی اختلاف کا سبب بنیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اس جلتی پر تیل ڈالنے سے گریز کیا جائے اور اختلافی آرا کے بجائے معقول اور منطقی بیانیے کا سہارا لیا جائے۔ سیاسی ہم آہنگی کے سوا ہمارے لیے کوئی آپشن نہیں اور اس کیلئے ہر حال میں کدوکاوش جاری رہنی چاہیے۔ یہ سال سیاسی بے چینی کی نذر ہو گیا‘ کوشش کریں یہ تلخیاں آنے والے سال کا مقدر نہ بنیں۔