عالمی امن کی ذمہ داری
پاکستان کی جانب سے ہر ممکن حد تک تحمل کے باوجود بھارت کا جنگی جنون کم ہونے میں نہیں آ رہا اور 7 مئی کی رات افواج پاکستان کے ہاتھوں منہ کی کھانے اور جدید ترین جنگی جہاز گنوانے کے اگلے روز بھارت نے پاکستان پر اسرائیلی ساختہ ڈرون اڑانے کا ڈرامہ کیا۔ بھارت کی یہ حرکت بھی الحمدللہ ناکام ہوئی اور دفاعی اداروں نے کمال مہارت سے ایک ایک ڈرون ڈھونڈ کر ختم کیا۔ دو دنوں میں مار گرائے گئے بھارتی ڈرونز کی تعداد 77تک پہنچ چکی ہے۔ خود کش ڈرونز کی تعداد کے لحاظ سے یہ بلاشبہ ایک بڑا حملہ تھا جس میں پاکستان کے وسیع علاقے کو ہدف بنایا گیا مگر دفاع وطن کی ذمہ داری بہترین طریقے سے انجام دیتے ہوئے سبھی ڈرونز کو فضا ہی میں ناکارہ کر دیا جانا ایک بڑی کامیابی مانی جائے گی۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کی شہری آبادی پر جنگ مسلط کرنے کی ان حرکتوں سے دو ایٹمی قوتوں میں کھلی جنگ کے خطرات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران دنیا میں کہیں بھی دو ایٹمی ملکوں میں براہِ راست جنگ کے خطرات میں کبھی اس درجہ شدت نہیں آئی جتنی کہ اس وقت ہے۔ بھارت کے اس جنگی پاگل پن کی وجہ سے عالمی امن اس وقت نازک کنارے پر ہے اور بھارت کی جانب سے کوئی بھی اشتعال انگیزی‘ بے احتیاطی‘ غلط فہمی یا تعصب کی ماری بی جے پی قیادت کا ناک اونچی رکھنے کا خبط اس صورتحال کو قابو سے باہر کر سکتا ہے؛ چنانچہ ان حالات میں بااثر ممالک کی مداخلت ضروری معلوم ہوتی ہے تاکہ اس کشیدگی کو پھیلنے سے روکا جائے اور جلد سے جلد کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ حالیہ کشیدگی کے لیے بھارت نے دہشت گردی کے جس واقعے کو جواز بنایا نئی دہلی سرکار دو ہفتے بعد بھی اس کا کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہے۔ پاکستان کی جانب سے غیر جانبدارانہ تفتیش کی کھلی اور بار بار پیشکش کی گئی مگر اس کا کوئی سنجیدہ جواب دینے کے بجائے مودی سرکار جنگی رَتھ پر چڑھ گئی‘ اور جنگ کا انتخاب کر کے اپنی ہی بھد اڑائی اور اپنے دفاعی اداروں کی نااہلی اور ناتجربہ کاری اور اپنے مخبری کے نظام کی لاعلمی کا بھانڈا اپنے ہاتھوں سے پھوڑا۔ آج پوری دنیا میں افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ قابلیت کے چرچے ہیں۔ جنگی ہوا بازی کے ماہرین سات مئی کی رات کی پاک بھارت فضائیہ کی تاریخی جھڑپ کو ایک کیس سٹڈی کے طور پر پڑھائے جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی فضائیہ کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس صورتحال میں بھارت کے پاس رہی سہی عزت بچانے کا یہی آپشن ہے کہ بات چیت کی طرف آئے۔ الزام تراشی اور یکطرفہ دھونس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو یہ بات روز ِروشن کی طرح واضح ہے کہ اس ملک کے نہ کوئی توسیعی عزائم ہیں اور نہ دراندازی کی خواہش۔ پاکستان امن‘ بقائے باہمی اور ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ ہم یہ ماننے میں حق بجانب ہیں کہ پہلگام واقعے کو جواز بنا کر بھارت کی جانب سے جنگ مسلط کرنے کا مقصد اس ترقی اور خوشحالی کے سفر کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا ہے۔ اس سے قبل یہ کام بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے کیا جا رہا تھا‘ بلکہ دہشت گردی کی لہر ترقیاتی منصوبوں کے تعاقب میں ملک کے دیگر حصوں میں بھی مار کرتی رہی۔ بہرحال یہ خوش آئند بات ہے کہ دنیا پاکستان کے ترقیاتی عزائم اور معاشی بہتری کے مقاصد کی تائید کر رہی ہے اور اقوام عالم کی حمایت سے پاکستان کے سیاسی اور سفارتی وزن میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستانی معیشت کی درست سمت اور مثبت کارکردگی کی تعریف کر رہے ہیں اور سرمایہ کاروں کا رجحان اس ابھرتی ہوئی معیشت کی جانب ہے۔ گزشتہ روز آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کیلئے اکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر قرض کی منظوری مالیاتی اداروں کے اس اعتماد کی توثیق کرتی ہے۔ یہ بھارت کیلئے ایک اور دھچکا ہے جو سمجھتا ہے کہ پاکستان کے معاملے میں اقوام عالم کی نہ آنکھیں ہیں اور نہ کان اور نہ ہی دنیا کی قومیں کچھ سمجھ بوجھ رکھتی ہیں‘ لہٰذا وہ وہی دیکھیں گی جو بھارت انہیں دکھائے گا‘ وہی سنیں گی جو بھارت سنائے گا اور جو خیال بھارت چاہے گا وہی ان کے ذہنوں میں تخلیق ہوگا۔ بھارت کو بے سروپا بڑپن کے جھوٹے خوابوں کی دنیا سے نکل آنا چاہیے۔ 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ ذات پات‘ رنگ ونسل اور چھوت چھات کی دنیا بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ جدید عالمی سوچ سے پچھڑی ہوئی تعصب زدہ بھارتی سوچ اپنا آپ منوانے کے لیے اگر دنیا کو آگ میں جھونکنے کی ضد کرے تو اسے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عالمی امن کا تحفظ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے مگر اس میں شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ بیرونی حملے سے دفاع کا حق تسلیم شدہ ہے اور سات مئی کی رات بھارت کی جانب سے شہری آبادیوں اور مساجد پر حملوں کے جواب میں پاکستان دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ا فواجِ پاکستان پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ وہ بھارت کو اپنے حساب سے اس کا جواب دیں گی۔ مگر بھارت اشتعال انگیزی سے پیچھے نہیں ہٹتا اور مزید محاذ گرم کرتا ہے تو یہ ایک ایسی صورتحال ہو گی جس میں مزید کشیدگی کے اندیشوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہ رہے گا۔