بڑھتی آبادی کے چیلنجز
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ملکی بقا کو لاحق اہم مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ کراچی میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اقتصادی مسائل وقتی نوعیت کے ہیں اور چند برسوں میں حل ہو جائیں گے لیکن ملکی بقا کو ماحولیاتی تبدیلی اور آبادی جیسے مسائل درپیش ہیں جو فوری توجہ کے مستحق ہیں‘ جب تک ہم ان بنیادی مسائل کو حل نہیں کرتے ملکی صلاحیت کو حقیقت میں نہیں بدل سکتے۔ آبادی کا بے ہنگم پھیلائو غیر معمولی چیلنج ہے جس کی شدت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ چند ہفتے قبل آبادی میں اضافے پر قابو پانے سے متعلق اعلیٰ سطحی کمیٹی نے اسے نیشنل ایمرجنسی قرار دیا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اپنی سفارشات میں پیدائش میں وقفہ کی حمایت کرتے ہوئے علمائے کرام کو اس پیغام کی ترویج میں فعال کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔

پاکستان میں آبادی کا مسئلہ اس وجہ سے بھی زیادہ سنگینی کا حامل ہے کہ بہت سے سماجی اور ماحولیاتی مسائل کی جڑ یہی مسئلہ ہے۔ آبادی کا مسئلہ صرف افراد کی تعداد کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے معیارِ زندگی کی وجہ سے بھی ہے۔ بچوں کی کمزور نشوونما اورتعلیم سمیت طرح طرح کی محرومیاں ‘ یہ سبھی مسائل آبادی میں اضافے کی وجہ سے ہیں۔ بڑھتی آبادی کے سبب ملکی وسائل پر دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے اور دستیاب وسائل ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ آج پاکستان کی آبادی دنیا کی پانچویں بڑی ریاستی آبادی ہے۔ 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری میں ملکی آبادی 24کروڑ 14لاکھ بتائی گئی‘ جس میں 2.55فیصد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہو رہا؛ یعنی ہر سال پاکستان کی آبادی میں نیوزی لینڈ جیسے ملک کی کُل آبادی سے زیادہ اضافہ ہو جاتا۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی ملکی آبادی کے لیے اسی تناسب سے وسائل بھی مہیا کر رہے ہیں؟
کیا تعلیم وصحت‘ روزگار اور دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے؟ ہرگز نہیں! اس وقت دو کروڑ 51 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں‘ پانچ برس سے کم عمر لگ بھگ 40 فیصد بچے کمزور ذہنی نشوونما کا شکار ہیں جبکہ ہر گھنٹے میں ایک ماں اور 30نوزائیدہ بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں شرح غربت 44.7 فیصد ہے اور اس میں اضافے کا رجحان فروغ پذیر ہے۔ ہر سال 15 سے 20 لاکھ نئے نوجوان مارکیٹ میں آ رہے ہیں مگر ہمارا معاشی سٹرکچر انہیں روزگار فراہم کرنے اور کھپانے سے قاصر ہے۔ پھر ان نوجوانوں میں اکثر محض ڈگری ہولڈر ہیں‘ جو کسی بھی قسم کی عملی مہارت اور ہنر سے ناآشنا ہیں۔ دنیا بھر میں نوجوان افرادی قوت ملک کا سب سے بڑا سرمایہ سمجھی جاتی ہے مگر پاکستان کا یہ سرمایہ بے ہنری کی وجہ سے ملکی معیشت میں حسبِ توقع ہاتھ بٹانے کے قابل نہیں۔
وزیر خزانہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اقتصادی مسائل تو چند برسوں میں حل ہو جائیں گے مگر جو بنیادی مسائل ہیں‘ اور تاحال ہماری ترجیحات سے باہر‘وہی ملک وقوم کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ ہمیں یہ مان کر چلنا ہو گا کہ آبادی میں اضافے کا تعلق صرف سماج سے نہیں بلکہ یہ تمام معاشی‘ معاشرتی اور ماحولیاتی اشاریوں کو متاثر کر رہی ہے اور واقعتاً یہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ایک ٹائم بم ہے‘ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ آبادی کی شرح کو جامع منصوبہ بندی کے ساتھ قابو میں لایا جائے اور اس کے لیے وفاق اور صوبوں میں تعاون اور ہم آہنگی کے علاوہ ایک جامع‘ ہمہ گیر اور مربوط حکمتِ عملی کی بھی ضرورت ہے۔ بہبودِ آبادی کی فرسودہ حکمتِ عملی پر نظر ثانی کے علاوہ عوام کو بھی یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ مناسب خوراک‘ اچھی تعلیم اور بہتر صحت ہر فرد کا بنیادی حق ہے مگر یہ حق اُسی وقت حاصل ہو سکے گا جب وسائل اور آبادی میں توازن قائم ہو گا۔