پاک افغان پائیدار امن کے تقاضے
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان کی جانب سے حملے جاری رہے تو پاکستان افغانستان کے اندر کارروائی کر سکتا ہے۔ وزیر دفاع کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایک طرف ترکیہ کے شہر استنبول میں دونوں ممالک کا وفد مذاکرات کے تیسرے دور میں شامل ہے جبکہ دوسری جانب ایک بار پھر افغان سرحد کی جانب سے گزشتہ روز چمن کے علاقے میں پاکستان کی سرحدی پوسٹوں پر فائرنگ کی گئی۔ پاکستان فوج کے ذمہ دارانہ جواب کے بعد یہ سلسلہ تھم گیا اور معاملہ مزید بگاڑ کا شکار نہیں ہوا۔ بعد ازاں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی جانب سے واضح کیا گیا کہ پاکستان جنگ بندی پر قائم اور استنبول مذاکرات کے حوالے سے پُرعزم ہے۔ کسی بھی ملک کیلئے یہ نہایت کڑا وقت ہوتا ہے کہ اسے اپنے ہمسایہ ملک سے سلامتی کا خطرہ لاحق ہو جائے اور اگر فریقِ ثانی معاملات کو سدھارنے کے بجائے مزید بگاڑنے پر تلا ہو تو معاملہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو افغانستان کا رویہ نہ صرف یہ کہ ابتدا ہی سے غلط اور ہتک آمیز رہا ہے بلکہ عالمی ضوابط اور قوانین کی پاسداری سے بھی کابل انتظامیہ مفر اختیار کرتی آئی ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ انتہا پسند عناصر‘ جو پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہیں‘ ان کے تار افغانستان ہی سے ہلائے جاتے ہیں۔

یہ پاکستان کا تحمل ہے کہ افغانستان کی جانب سے درپیش سکیورٹی خطرات کے باوجود وہ کشیدگی بڑھانے کے بجائے افہام و تفہیم سے مسئلے کے حل کا خواہاں ہے۔ اگر افغانستان 2020ء کے دوحہ معاہدے پر عمل کرتے ہوئے اپنی سرزمین کو دہشتگردی میں استعمال ہونے سے روک لیتا اور اسے دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دیتا تو ان مذاکرات کی نوبت ہی نہ آتی مگر افسوس کہ افغانستان نے اپنی عالمی اور علاقائی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی جس سے صورتحال دونوں ممالک میں جھڑپوں تک جا پہنچی۔ بعد ازاں قطر اور ترکیہ کے تعاون سے مذاکراتی سلسلے کا آغاز ہوا اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پہلے مذاکراتی دور میں جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے تصفیہ طلب معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا عزم کیا گیا۔ دوسرے دور‘ استنبول مذاکرات میں فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل اور امن کے قیام کو یقینی بنانے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے فریق پر جرمانہ عائد کرنے کیلئے ایک نگرانی اور تصدیقی نظام کے قیام پر اتفاق کیا۔ علاوہ ازیں مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اب تیسرے مذاکراتی دور میں علاقائی اور سرحدی امن و امان کے حوالے سے مزید پیشرفت کی امید ہے۔
ریاستِ پاکستان کا مؤقف بہت صاف اور واضح ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہیے‘ یعنی دہشتگردی کا مکمل خاتمہ اور اس کیلئے اسلام آباد کابل انتظامیہ سے ٹھوس اور قابلِ تصدیق ضمانتیں بھی چاہتا ہے۔گزشتہ مذاکراتی دور میں معاملات کافی حد تک نمٹ چکے تھے مگر بعد ازاں افغان وفد طے کردہ نکات سے پیچھے ہٹ گیا۔ اب بھی ایسی ہی روش دیکھنے میں آ رہی ہے کہ جیسے ہی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو سرحدی چھیڑ خانی بھی زور پکڑنے لگی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی طے شدہ ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان پُرامید ہے کہ افغانستان دانشمندی سے کام لے گا اور خطے میں امن بحال ہوگا۔ وزیر دفاع نے اگر افغانستان کے اندر کارروائی کی بات کی ہے تو یہ مذاکرات کی ناکامی اور دہشتگردی کی صورت میں ہے‘جو پاکستان کی سلامتی کا ناگزیر تقاضا بھی ہے۔
اقوام متحدہ کا چارٹر پاکستان کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کیلئے ہر ضروری اقدام کر سکتا ہے؛ البتہ امید ہے کہ گلوبل کمیونٹی کے ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے افغانستان اپنی ذمہ داریوں یعنی اپنی سرزمین دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائے گا اور یہ معاملہ پاکستان اور افغانستان میں پائیدار امن کے قیام پر منتج ہو گا۔