شرح آبادی اور ماحولیاتی خطرہ
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آبادی میں غیر معمولی اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کو ملک کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ بقول اُن کے آبادی میں 2.55 فیصد سالانہ اضافے کے ساتھ پائیدار ترقی ممکن نہیں۔ 2.55 فیصد شرح اضافہ ملک کے اقتصادی اور ترقیاتی اہداف کیلئے غیر معمولی چیلنج سمجھا جاتا ہے۔ یہ شرح 1998ء تا 2017ء کے عرصے میں ریکارڈ کی گئی 2.4 فیصد شرح اضافہ سے زیادہ اور آبادی کے اضافے کے مسلسل رجحان کو ظاہر کرتی ہے۔ نتیجے کے طور پر پاکستان کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور 2023ء کی مردم شماری میں 24کروڑ دس لاکھ سے زیادہ افراد شمار کیے گئے۔ 1951ء میں پہلی مردم شماری میں مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ 30لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ 1998ء تک یہ تعداد 13 کروڑ 20لاکھ تک پہنچ گئی اور 2017ء تک 20 کروڑ 76 لاکھ ہو گئی۔

یعنی 66 برس میں آبادی میں چھ گنا سے زائد اضافہ ہوا۔ اس طرح ملک عزیز آبادی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کا سب سے تیزی سے ’ترقی‘ کرنے والا ملک بن گیا ۔ آبادی میں اضافے کا یہ رجحان جاری رہا تو اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق 2050ء تک پاکستان کی آبادی 45 کروڑ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ بذاتِ خود بہت بڑا مسئلہ ہے اور بیشمار مسائل اور چیلنجز کا محرک اور مسبب ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ مواقع اور وسائل کی مساوات غیر معمولی طور پر متاثر ہوتی ہے۔ بے تحاشا آبادی سے پیدا ہونے والے عمرانی مسائل الگ ہیں۔ آبادی میں تیز ترین اضافے کی وجہ سے پاکستان میں نوجوانوں کی شرح آبادی میں غالب ہے‘ مگر وسائل اور مواقع اتنے نہیں؛ چنانچہ بے ہنر اور معیاری تعلیم وتربیت سے محروم ہجوم ہماری آبادی میں غالب آ چکا ہے۔کیا شہر اور کیا دیہات‘ غیر معمولی شرح سے بڑھتی آبادی کے مسائل ہر جگہ یکساں اور سنگین ہیں۔ صحت اور تعلیم سمیت سبھی سہولتیں اپنی گنجائش سے کئی گنا زیادہ بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔ اس صورتحال میں معیار کیونکر یقینی بنایا جا سکتا ہے؟ معیار کا مسئلہ خوراک اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے معاملے میں بھی اسی طرح ہے۔
خوراک کی جعل سازی‘ ملاوٹ اور ناقص پیداوار عام بات ہو چکی ہے۔ پیداوار کم اور صارف زیادہ ہیں‘ طلب اور رسد کا مسئلہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا بہت بڑا ذمہ دار ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سکڑتے ہوئے وسائل کے ہاتھوں لوگ خوراک اور علاج کے معیار اور مقدار پر سمجھوتا کرنے پہ مجبور ہیں۔ آبادی اور ماحول کا بہت قریبی تعلق ہے۔ کم آبادی کا مطلب ہے کہ قدرتی ماحول کو نمو کا موقع ملے گا مگر بے تحاشا تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرنا ماحولیاتی استحصال کے بغیر ممکن نہیں۔ یوں سبزہ تیزی سے کم ہوا ہے اور گاڑیوں کی تعداد آبادی میں اضافے کی شرح سے بھی کہیں زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔ اس طرح صنعتی پیداواری وسائل بھی‘ جن کا اثر ماحو ل کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک کے بڑے شہروں کی آب وہوا کا معیار خطرناک حد تک بگڑ چکا ہے۔
دھوئیں اور گرد وغبار کی وجہ سے ہمارے شہروں میں معیارِ زندگی پہلے ہی خوفناک درجے پر پہنچ چکا ہے‘ آباد ی میں اضافے کی جو شرح ہے اس کے ساتھ آنے والے پانچ دس سال میں حالات مزید تباہ کن صورت اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان مسائل کی شدت کہیں کم ہوتی اگر دو تین دہائی پہلے آبادی کی منصوبہ بندی کو سنجیدگی سے لیا جاتا‘ جیسے اس خطے کے اور ترقی پذیر دنیا کے ممالک میں لیا جا رہا تھا۔ مگر ہم ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ نہیں کر سکتے‘ البتہ درست اقدامات سے مستقبل کو ضرور تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جس شرح سے ہمارے ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اور جو ہماری معیشت کی شرح نمو ہے‘ اس میں ایک صحتمند‘ تعلیم یافتہ اور ہنر مند قوم کا خواب پورا کرنا خاصا دشوار ہے۔