پاکستان میں گاڑیاں مہنگی کیوں ہیں؟
لاہور: (خصوصی ایڈیشن) پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، عام گاڑی بھی 10 لاکھ روپے سے کم کی نہیں، قیمتیں عالمی مععار کی لیکن کوالٹی میں زمین آسمان کا فرق، حفاظتی انتظامات میں کمی کے باعث حادثات میں اموات کی شرح بڑھ رہی ہے۔
آج کی تیز رفتار، مصروف اور ہلچل بھری زندگی میں ذاتی سواری ہر خاص و عام کی ضرروت بن چکی ہے۔ غریب طبقہ جہاں موٹر سائیکل یا سائیکل پر گزارا کر رہا ہے، وہیں متوسط اور امیر طبقے کیلئے گاڑی زندگی کا ایک لازمی جزو تصور کی جاتی ہے۔
ہر اک شہر، گاؤں میں صاحب استطاعت افراد بالخصوص لاہور ، کراچی ، راولپنڈی سمیت دیگر بڑے شہروں میں گھنٹوں بسوں ، ویگنیوں میں دھکوں بھرے سفر سے اجتناب کرتے ہیں اور اپنی ذاتی گاڑی کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہر گزرتے دن پاکستان میں گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہو رہا ہے ، پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کی تنظیم پاکستان آٹو میٹک مینو فیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں رواں مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں کاروں کی فروخت میں 37 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ بلاشبہ یہ حقیقت حیران کن ہے ، کیونکہ پاکستان میں جس لحاظ سے گاڑیوں کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں کو چھو چکی ہیں۔
ان حالات میں ان کی خریداری آسان کام نہیں ، اس کے باوجود بھی اگر گاڑیاں بک رہی ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کاروں کا حصول پاکستانیوں کیلئے کس حد تک ایک اہم ترجیح بن چکا ہے۔
ہمارے ہاں یہ جملہ زبان زد عام ہے کہ پاکستان میں گاڑیاں بہت مہنگی ہیں اور پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں لہٰذا اْن چیدہ وجوہات کا جائزہ لینا بہت ضرروی ہے جو ہمارے ہاں گاڑیوں کے مہنگے ہونے کا سبب بنتی ہیں۔
سب سے بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی گاڑی مکمل طور پر تیار نہیں ہوتی، اس کے متعدد پرزے بیرونِ ملک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی گاڑی کی قیمت میں ان درآمدات کا بہت عمل دخل ہے۔
اگر پرزے بیرون ملک سے درآمد کیے جائیں تو یقینا ان پر ڈیوٹی ٹیکس و دیگر محصولات عائد ہونگے جن سے قیمت بڑھ جائے گی۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہاں ایک گاڑی کی 30 فیصد قیمت اسکی ’’کٹ‘‘ کی ہوتی ہے جس میں اس کے مختلف حصے شامل ہیں۔
قیمت کا 34 فیصد حصہ مختلف ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے جبکہ باقی 36 فیصد میں مقامی پارٹس اور اسمبلنگ پر اٹھنے والے اخراجات، گاڑی بنانے والے کا منافع اور ڈیلر کا حصہ شامل ہوتا ہے۔
اب جس طرح پاکستان میں روز بہ روز مہنگائی بڑھ رہی ہے، نت نئے ٹیکس لگ رہے ہیں، تو یقینا گاڑیوں کے پرزے بھی مہنگے منگوائے جاتے ہیں اور خدمات کے پیسے بھی زیادہ لیے جاتے ہیں ۔ مہنگائی کی دوسری وجہ طلب ورسد میں فرق ہے ، گاڑیوں کی طلب زیادہ اور سپلائی کم ہے۔
گاڑیوں کی ایک معروف کمپنی کے مطابق پاکستان میں ہر ایک ہزار میں سے فقط اٹھارہ افراد کے لیے ایک گاڑی دستیاب ہے، جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں ہزار میں سے نو سو اسی اور آٹھ سو پچاس افراد گاڑی کے مالک ہیں، اب جب گاڑیوں کی فراہمی اتنی کم ہو تو گاڑیاں مہنگی ہی بکیں گی۔ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے کسٹم ایکٹ میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کرتے ہوئے نئی گاڑیوں کو تین ماہ کے اندر فروخت کرنے پر دو لاکھ روپے تک کا انکم ٹیکس بھی لاگو کردیا ہے، اس نئے ٹیکس کے بعد 1000 سی سی تک کی گاڑی پر 50 ہزار، ایک سے دو ہزار سی سی گاڑی کی فروخت پر ایک لاکھ جبکہ دو ہزار سے زائد سی سی کی نئی گاڑی کو تین ماہ کے اندر فروخت کرنے پر 2 لاکھ روپے کا ٹیکس ادا کرنا پڑ رہا ہے حکومت کے مطابق اس ٹیکس کا مقصد گاڑیوں کی بلیک مارکیٹ میں فروخت اور ’اون منی‘ کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ بلاشبہ یہ حکومت کا ایک احسن اقدام ہے جس سے گاڑیوں کی بڑھتی بے ہنگم قیمتیں کچھ کنٹرول میں آئے گی۔ مگر گاڑیوں کی کوالٹی بہتر بنانے کیلئے بھی حکومت کو سخت ایکشن لینے چاہیے۔
پاکستان میں عموماً 800 سے 1800 سی سی تک کی گاڑیاں زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ عام سے عام گاڑی بھی آج 10 لاکھ سے کم قیمت میں مل جائے ایسا سوچنا خواب دیکھنے کے مترادف ہیں۔ اس حوالے سے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے جنرل مینجر عاصم ایاز کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہمارے ٹیکس زیادہ ہیں تو گاڑیاں لازمی مہنگی ہونگی، قیمتیں مارکیٹ میکنزم سے کنٹرول ہوتی ہے جبکہ اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ‘‘۔
گزشتہ برس قمر زمان کائرہ کے جواں سال صاحبزادے اپنے دوست کے ساتھ کار حادثے میں جاں بحق ہوئے، اس سے کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ( ن) کے رہنما بلیغ الرحمان کی بیوی بھی کار حادثے میں جاں بحق ہوئیں، صوبائی وزیر سبطین خان کا بھانجا اور نہ جانے اور کتنی زندگیاں کاروں کی ناقص کوالٹی کی وجہ سے ضائع ہوئی ہیں۔کیونکہ بڑی گاڑیا ں عالمی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ انسانی جان کی حفاظت کے لئے مناسب انتظامات نظر نہیں آتے، لاکھوں روپے کی گاڑیوں میں ائیر بیگ نہ ہونے کی وجہ سے حادثات میں اموات کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ حادثات میں زیادہ اموات کی وجہ گاڑیوں میں حفاظتی انتظامات کی کمی ہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جوگاڑیاں 30 سے 50 لاکھ روپے میں بکتی ہیں، پیسے بھی ایڈوانس لے کر عوام کو چھ چھ ماہ انتظار کروایا جاتا ہے ، اس کا میعار کس حد تک قابل اعتماد ہے؟ یہ تو یونہی ہے کہ لاکھوں روپے میں موت خرید رہے ہیں۔ معروف کمپنیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ ایئر بیگز موجود ہوتے ہیں ، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کو چیک کون کرتا ہے ؟ کئی سال پہلے امریکہ میں ایک کمپنی کی بریکس کا مسئلہ سامنے آیا ، جس پر اس کمپنی کی گاڑیوں کی فروخت روک دی گئی ، مگر پاکستان میں ڈیلرز گاڑیوں کے مافیاز کے سامنے بے حس ہو جاتے ہیں، اور اپنا منافع بچانے کی خاطر عوامی زندگی کو داؤ پر لگاتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں نئی گاڑیاں لینے والے شہری بھی معیار سے مطمئن نہیں ہیں ، کئی شہریوں کی شکایات ہیں کہ نئی گاڑی کا رنگ بمشکل 3 سے 4 سال چلتا ہے ، جس کے بعد وہ خراب ہونے لگتا ہے ۔بعض شہریوں نے کہا کہ ایک قسم کی گاڑی کی کوالٹی ٹین ڈبے سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔چھوٹی موٹی ٹکر میں بھی بڑا نقصان ہو جاتا ہے ، جسے ٹھیک کرنے والے میکینک بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیدا وار کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں اسمبل ہونے والی گاڑیوں میں لو کوالٹی سیفٹی اسٹینڈرڈ ہیں ، قائمہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں یہ نقطہ اٹھایا گیا کہ امریکہ میں اچھی کارکی قیمت 34 لاکھ ہے جس کا معیار پاکستان کی گاڑیوں سے ہزار گنا بہتر ہے، پاکستان میں 45 لاکھ کی کار ملتی ہے جس کا معیار دیگر ممالک کی گاڑیوں سے کافی پیچھے ہے، اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا کہ ہمارے ہاں سیفٹی، آلودگی اور معیار کو اس شعبے میں لاگو کرنا ناگزیر ہو چکا ہے ، جسکی جانچ پڑتال تھرڈ پارٹی کے ذریعے ہونا ضروری ہے۔ اجلاس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ ملک میں 95 فیصد آٹو پارٹس بن سکتے ہیں مگر یہاں پلانٹ لگانے کی بجائے منافع خوری پر زور دیاجاتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ مان لیا جائے کہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں ریگولیٹری نظام کمزور ہے، اس لیے لوکل گاڑیاں بنانے والے قیمتوں میں آسانی سے اضافہ کر دیتے ہیں بغیر اس خوف کے کہ مارکیٹ میں ان کے شیئر ز پر کیا اثر پڑے گا کیونکہ مارکیٹ میں ان کا مقابل ہی موجود نہیں ہوتا، نہ ان پر کوئی ٹھوس چیک اینڈ بیلنس ہے، ملک میں آٹو انڈسٹری کی ریگولیٹری کا ایک ٹھوس ڈھانچہ بنایا جائے ، جو گاڑیوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیساتھ ساتھ انکی مینوفیکچرنگ کی مانیٹرنگ بھی کرے، ناقص میٹریل یا حفاظتی کوتاہی کی شکایت ملنے پر لائسنس منسوخ کر دیا جائے ۔ تین چار کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کرنے کی کوشش کی جائے، اسکے لیے مختلف دیگر کمپنیاں جنکی کاریں سستی ہیں ان کو پاکستان میں آنے کی اجازت دی جائے، جہاں حکومت انکی اسمبلنگ فیکٹریاں لگانے میں تعاون بھی کرے۔
وزیراعظم عمران خان نے ملائشیاء کے تعاون سے پاکستان میں فیکٹری لگانے کا اعلان کیا تھا اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جانا چاہیے اور دوست ممالک کے دیگر منصوبے بھی ملک میں لائے جائیں۔
دنیا اب جدید ٹیکنالوجی کی جانب جا رہی ہے ، جیسے الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں ، پاکستان میں بھی ایسی گاڑیاں لائی جانی چاہیے جو کہ سستی ہوں ، ماحول دوست ہوں ، اور انکے میٹریل کی بھی خاص چیکنگ ہو۔ گاڑیاں مقامی سطح پر تیارکی جائیں تاکہ باہر سے پرزے نہ منگوانے پڑیں، ڈیوٹی ٹیکس کم ہو اور عوام کو گاڑیاں سستی ملیں، ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، لہٰذابا صلاحیت افراد کو اس صنعت میں شامل کرنا ہوگا،جس سے نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا۔ اگر کوئی شخص کسی گاڑی میں کوئی خامی دیکھے تو متعلقہ اداروں سے رجوع کرے تاکہ لوگوں میں شعور بیدار ہو۔ اس طرح کمپنی کو احساس ہوگا اور ممکن ہے کہ معیار بہتر ہو جائے ۔
پاکستان خطے میں وہ واحد ملک ہے جہاں عوام نئی گاڑیوں کی خریداری میں پیسہ پانی کی طرح کیش کی صورت میں بہاتے ہیں اور کئی کئی ماہ گاڑی کا انتظار کرنا پرتا ہے، اور پھر جو گاڑی ملے اس میں سیفٹی اسٹینڈرز کم ہی ہوتے ہیں ، مغربی ممالک کی گاڑیوں میں 8 حفاظتی ایئر بیگز لگانا لازمی ہیں ، مگر پاکستان میں پرانی گاڑیوں میں تو ایک بھی نہیں تاہم اب نئی آنے والی تین چار گاڑیوں میں بمشکل 1 ایئر بیگ رکھا جاتا ہے، اور پھر پوچھا جاتا ہے کہ دوسرا ایئر بیگ بھی چاہیے کہ نہیں ، اگر دوسراا یئر بیگ لگوائیں تو ا سکے لاکھوں روپے الگ دینے پڑتے ہیں، جبکہ گاڑی میں اینٹی لاک بریکنگ سسٹم (ABS) ، آٹو گئیر شفٹ (AGS) سستم ، اور سیٹ بیلٹس بھی بس برائے نام ہوتی ہیں، جنکا معیار عالمی معیار کے پاس سے بھی نہیں گزرتا۔
اسی طرح رات کو پیش آنے والے حادثات کی ایک بڑی وجہ گاڑیوں میں کم کوالٹی کی ہیڈ لائٹس ہوتی ہیں۔ پاکستان میں گاڑیاں بیچنے والی ایک کمپنی کے مالک نے کہاہے کہ ہمارے ہاں کار انڈسٹری کے لئے سیفٹی پالیسی ہے نہ کسی قسم کا سیفٹی سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے، یہ کمپنیوں کی اپنی مرضی ہے کہ وہ یہاں بکنے والی گاڑیوں میں کتنے ایئر بیگز ڈالیں یا بریک کیسی رکھیں۔
اگر وہ خاطر خواہ سیفٹی فیچرز نہ بھی رکھیں تو ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات جو روڈ سیفٹی کے ماہرین بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ گاڑی میں جدید سیفٹی فیچرز کاصحیح استعمال بھی ضروری ہیں ۔ عوام کو پہلے انھیں استعمال کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے جیسا کہ آئینوں ، بیک لائٹس اور سیٹ بیلٹس کاا ستعمال۔ کیونکہ گاڑیوں کے ایئر بیگس صرف اسی صورت میں کام کرتے ہیں جب سیٹ بیلٹ لگی ہو ، یعنی کہ سیٹ بیلٹ کا استعمال نہیں ہوگا تو کوئی ایئر بیگ نہیں کھلے گا۔
اگرچہ پاکستان میں گاڑیوں میں ڈرائیورز اور اگلی سیٹ پر بیٹھنے والوں کیلئے سیٹ بیلٹ کا استعمال قانونی طور پر لازمی ہے ، جس کو پورا نہ کرنے پر جرمانہ بھی ہو سکتا ہے ، مگر عوام سیٹ بیلٹ کا استعمال کرتے نظر نہیں آتے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک جبکہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوتے ہیں ، اور وہ صرف اس لیے نہیں کہ انکی گاڑی میں جدید سیفٹی فیچرز موجود نہیں بلکہ یہ اس لیے بھی کہ وہ موجود سہولتوں کا ٹھیک سے استعمال ہی نہیں کرتے ۔