تازہ اسپیشل فیچر

کیپٹن سرور شہید: پاکستان کی عسکری تاریخ کا پہلا نشانِ حیدر حاصل کرنیوالے سپوت

پاکستان

لاہور: (دنیا نیوز) کیپٹن راجہ محمد سرور شہید نے پاکستان کی عسکری تاریخ کا پہلا اور سب سے بڑا اعزاز نشانِ حیدر حاصل کیا۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھتے رہے، باڑ کو دو حصوں میں کاٹ ڈالا اور دشمن چوکی چھوڑ کر بھاگ گیا۔

ایک دن کمانڈر نے اپنے جوانوں کو اکٹھا کیا اور کہا    یہ پہاڑی ہمارے لئے ایک چیلنج بن چکی ہے جو نوجوان اس مہم کا بیڑا اٹھا سکتا ہو، آگے آ جائے۔‘‘

یہ سنتے ہی پوری کمپنی پر سناٹا چھا گیا۔ ہر شخص جانتا تھا کہ یہ موت کے منہ میں جانے والی بات ہے۔   یس سر، میں اس مہم کا بیڑا اٹھاتا ہوں‘‘ محمد سرور نے کہا۔

27 جولائی 1948ء کی رات محمد سرور شہید اپنے جوانوں کے ساتھ ٹارگٹ کی طرف بڑھے۔ توپوں اورمشین گنوں سے فائرنگ ہو رہی تھی۔ برستی گولیوں میں محمد سرور اپنی بٹالین کی قیادت کرتے ہوئے سب سے آگے تھے۔

اس دوران کئی جوان موت سے گلے مل گئے۔ ساتھیوں کی تعداد میں کمی ہونے لگی کیونکہ دشمن بلندی پر تھا۔ آپ ان کے سیدھے ٹارگٹ پر تھے لیکن اس کمی نے حوصلہ کم نہیں کیا بلکہ بڑھایا۔

اسی وقت ایک گولی نے محمد سرور شہید کا دایاں شانہ چیر کر رکھ دیا۔ خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ دشمن کی گولیاں ان کے دائیں بائیں سے اور سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھتے رہے ان کے زخموں سے خون جاری تھا۔ آخر وہ اس مورچے تک جا پہنچے جہاں سے گولیاں برسائی جا رہی تھیں۔

وہ باڑ کاٹنے لگے۔ آخری تار کٹنے کو تھی کہ دشمن کی فائرنگ نے محمد سرور شہید کا سینہ چھلنی کر دیا۔ ایک جھٹکے سے انہوں نے آخری تار کو دو حصوں میں کاٹا۔ دشمن پر آخری برسٹ کے ساتھ ‘‘اللہ اکبر‘‘ کے الفاظ ادا کرتے ہوئے رب کے حضور لبیک کہہ دیا۔

دشمن اس چوکی کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ صبح کے سورج نے اس پہاڑی پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا۔

راجہ محمد سرور عید کے دن 10 نومبر 1910ء کو موضع سنگوری تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کی شہادت بھی عید کے دوسرے دن ہوئی۔

یہ علاقہ بنجر اور زیادہ تر غیر آباد ہے۔ یہاں کاشت کاری کم ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگ فوج میں ملازم ہیں۔ آپ کے والد بھی آپ کو فوج میں بھرتی کروانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس کے لیے ان کی تعلیم کا بندوبست ہوا چونکہ آپ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اس لیے ابتدائی تعلیم گاؤں کی مسجد میں حاصل کی۔

چھ برس کے ہوئے تو ان کے والد نے انہیں چک نمبر 229 گ ب ضلع فیصل آباد کے مقامی سکول میں داخل کروا دیا۔ یہاں سے پانچویں کلاس پاس کی۔ 1925ء میں مڈل سکول سے آٹھویں، سترہ سال کی عمر میں 1927ء میں میٹرک میں اول پوزیشن حاصل کی۔ ان کے خاندان کے بہت سارے افراد فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

ان کے والد محمد حیات خاں فوج میں حوالدار تھے۔ انگریز حکومت نے ان کو پہلی جنگِ عظیم میں بہادری سے بھرپور کارنامے سر انجام دینے پر 3 مربع زمین الاٹ کی تھی۔ 23 فروری 1932ء کو محمد سرور کے والد محمد حیات خاں کا انتقال ہوا۔

ان کی اولاد میں بڑا بیٹا محمد مرزا خاں فوج کے میجر کے عہدے پر ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کو بھی ایک مربع زمین دلیری اور بہادری پر انعام میں ملی۔ دوسرے بیٹے یعنی راجہ محمد سرورکے دوسرے بھائی محمد سردار خاں بھی فوج میں حوالدار تھے۔

کیپٹن راجہ محمد سرور شہید ، محمد حیات خاں کے چوتھے اور سب سے چھوٹے بیٹے تھے جو نشانِ حیدر حاصل کر کے خاندان اور مملکتِ پاکستان کے لئے فخر و ناز کا باعث بنے۔

جب انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو 1929ء میں بلوچ رجمنٹ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے۔ کراچی میں ابتدائی فوجی کورس کیا۔ دو سال شمال مغربی سرحدی صوبے میں خدمات سرانجام دیں۔

1941ء میں اسی رجمنٹ میں حوالدار کے عہدے تک پہنچے۔ ڈرائیونگ کا کورس کیا۔ 1941ء میں وہ رائل انڈین آرمی میں جونیئر کمیشنڈ آفیسر منتخب ہوئے اور وی سی او سکولف رائل انڈین سروس کور میں انسٹرکٹر کی خدمات سر انجام دینے لگے۔

19 مارچ 1944ء کو سیکنڈ لیفٹیننٹ بنے۔ 27 اپریل 1944ء کو یہ لیفٹیننٹ بنا دئیے گئے۔ یکم فروری 1947ء کی تاریخ محمد سرور شہید کی زندگی میں بے حد اہم تھی، انہیں کیپٹن کا عہدہ دیا گیا۔

محمد سرور شہید درمیانے قد، سڈول جسم، متناسب اعضاء، موٹی آنکھوں، بارعب آواز، گندمی رنگ اور بھاری مونچھوں کے حامل تھے۔

تلاوت قرآن پاک، نماز کے پابند اور مطالعے کے شوقین تھے۔ محمد سرور شہید علامہ اقبالؒ سے بھی بہت محبت رکھتے تھے اور ان کے بے شمار شعر انہیں زبانی یاد تھے۔

کبڈی اور فٹبال محمد سرور شہید کے پسندیدہ کھیل تھے۔ ان کے حالات زندگی میں یہ واقعہ قابل توجہ ہے کہ ایک بڑھیا کو دینے کے لئے ان کی جیب میں ریزگاری نہ تھی، اس سے باقاعدہ معافی مانگی۔ کچھ دور گئے تو دل بے تاب ہو اٹھا۔ گوارا نہ کیا کہ محض ریزگاری نہ ہونے کے باعث اللہ کے نام پر دینے سے انکار کر دیا، فوراً واپس آئے، بڑھیا تلاش بسیار کے بعد ملی تو اس سے دوبارہ معافی مانگی اور حسب توفیق مدد کی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

ان کی شادی ان کے خاندان میں خوش اخلاق خاتون کرم جان سے ہوئی۔ شادی کی تقریب بے حد سادہ اور اسلامی روایات کے مطابق 15 مارچ 1936ء کو ہوئی۔

جنرل سکندر مرزا کا دور تھا جب 23 مارچ 1957ء کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر کیپٹن محمد سرور شہید کے اس زندہ جاوید کارنامے پر انہیں نشانِ حیدر دینے کا اعلان کیا مگر یہ اعزاز دینے کی تقریب اس وقت کے فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کے دورِ حکومت میں 27 اکتوبر کو منعقد ہوئی۔

تقریب راولپنڈی میں منعقد ہوئی جہاں ان کی بیگم محترمہ کرم جان کو کیپٹن محمد سرور شہید کا نشانِ حیدر دیا گیا۔ پاکستان کی عسکری تاریخ کا پہلا اور سب سے بڑا اعزاز نشانِ حیدر جو آنے والی نسلوں کو ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا۔

ایوب خاں نے اپنے خطاب میں کہا کہ   میں کیپٹن محمد سرور شہید کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں جنہوں نے سب سے پہلا نشانِ حیدر حاصل کرکے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ انہوں نے اپنی قربانی سے اپنی فوج اور اپنی بٹالین کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا ہے۔ بے شک ان کی قربانی پر ہم سب کو فخر ہے۔‘‘

تحریر: اختر سردار چودھری