تازہ اسپیشل فیچر

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی زندگی پر ایک نظر

لاہور: (ویب ڈیسک) سابق صدر مملکت اور جنرل (ر) پرویزمشرف اپنے غیرمعمولی فیصلوں اور متنازع اقدامات کے باعث ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

واضح رہے کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف طویل علالت کے بعد 79 برس کی عمر میں دبئی میں انتقال کر گئے۔

جنرل (ر) پرویز مشرف دبئی کے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے، سفارتی ذرائع اور اہلخانہ نے سابق صدر کے انتقال کی تصدیق کر دی ہے، اہلخانہ کے مطابق پرویز مشرف کا اتوار کو علی الصبح دبئی میں انتقال ہوا۔

"سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ متعارف کرانے والے پرویز مشرف کارگل جنگ سے لے کر نواز حکومت کا تختہ اُلٹنے تک اور خود کو باوردی صدر بنوانے سے لے کر ملک سے باہر جانے تک اپنی ہنگامہ خیز زندگی میں ہمیشہ سرخیوں میں رہے۔

سابق صدر پرویز مشرف 11 اگست 1943ء کو دہلی میں پیدا ہوئے،قیام پاکستان کے بعد فیملی کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے، 1964 میں پاکستان کی بری فوج میں شامل ہوئے، بعد ازاں انہوں نے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی ) میں شمولیت اختیار کی اور بھارت کے ساتھ ہونے والی 1965 اور 1971 کی جنگوں میں شرکت کی، وہ آرمی سٹاف اینڈ کمانڈ کالج کوئٹہ کے گریجویٹ تھے، 7 اکتوبر 1998 کو بری فوج کے چیف آف سٹاف کے منصب پر فائز ہوئے، انہیں امتیازی سند سے بھی نوازا گیا تھا۔

ان کی حکمرانی میں پاکستان 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر دہشت گرد حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا کلیدی اتحادی بن گیا، انہوں نے نیٹو کی جانب سے فوجی ساز و سامان کو پاکستان کے ذریعے لینڈ لاک افغانستان تک پہنچانے کی منظوری اور امریکا کو پاکستان کے ہوائی اڈوں کو لاجسٹک سپورٹ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی۔

12 اکتوبر 1999 کو انہوں نے بحیثیت آرمی چیف اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کر لیا تھا اور ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد صدر منتخب ہوئے تھے، 2001 سے 2008 تک صدر پاکستان کے عہدے پر براجمان رہے، بعد ازاں اسمبلیوں نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی تھی تاہم 9 سال بعد پرویز مشرف فوج کے سربراہ کے عہدے سے 28 نومبر 2007 کو سبکدوش ہوگئے اور 18 اگست 2008 کو دبئی چلے گئے تھے۔

صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد ان پر متعدد بار دہشت گرد حملے بھی کیے گئے، سال 2007 میں سابق صدر نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی، جب کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو معزول کرنے کی وجہ سے ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے،اس فیصلے کے خلاف وکلاء تحریک چلی جس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس افتخار چودھری کو بحال کر دیا تاہم جنرل مشرف نے 3 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل کر دیا۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف پر مارچ 2014 میں 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کرنے پر غداری کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی،17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی، جسے بعد میں ختم کر دیا گیا اور فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

سابق فوجی حکمران مارچ 2016 میں علاج کے لیے دبئی چلے گئے تھے اور اس کے بعد سے وہ پاکستان واپس نہیں آئے تھے، لندن اور دبئی میں قیام کے دوران انہوں نے کئی لیکچرز بھی دیئے۔

مشرف پر حملے کب اور کہاں ہوئے؟۔
جنرل پرویز مشرف پر 14 اور 25 دسمبر 2003 کو راولپنڈی میں دو قاتلانہ حملے کیے گئے تھے جن کے الزام میں کل 16 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

ان میں سے آٹھ افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے 14 دسمبر کو راولپنڈی کے علاقے جھنڈا چیچی میں ایک پل کو اس وقت بم سے نشانہ بنایا جب جنرل مشرف کا قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا، اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا جبکہ دیگرآٹھ ملزمان پر راولپنڈی ہی کے علاقے میں جھنڈا چیچی کے نزدیک دو مختلف پٹرول پمپس کے قریب جنرل مشرف کے قافلے پر خودکش حملوں کا الزام تھا جس میں سابق صدر تو محفوظ رہے لیکن خودکش حملہ آوروں سمیت 12 افراد مارے گئے تھے۔

جن ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے دو کا تعلق فوج جب کہ چھ کا پاکستان فضائیہ سے تھا جب کہ دیگر گرفتار افراد سویلین تھے۔

حملے کے جرم میں گرفتار افراد میں سے ایک پاکستانی فوج کے سپاہی اسلام صدیقی کو 2005 میں ملتان جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی، جب کہ ایئرفورس سے ہی تعلق رکھنے والے سینئر ٹیک کرم دین اور جونیئر ٹیک نصراللہ کو عمر قید جب کہ ایک سویلین عدنان خان کو 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔

سابق صدر پر حملے میں ملوث ہونے کے جرم میں موت کی سزا پانے والے 12 افراد میں فوج کے نائیک کے علاوہ ایئرفورس کے چار اہلکار شامل تھے۔

انگریزی ماہنامہ ہیرالڈ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 25 دسمبر کے حملے کیلئے رانا نوید کے اے ڈی بی پی کالونی میں واقع فلیٹ میں اسلحہ رکھا گیا تھا۔

مواخذے کی کارروائی سے قبل استعفیٰ
سال 2008 کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی زیرِ قیادت مخلوط حکومت نے پرویز مشرف کو رضا کارانہ طور پر مستعفی ہونے کا موقع دینے کے بعد ان کے مواخذے کے لیے پارلیمانی طریقہ کار پر غور شروع کر دیا تھا۔

پرویز مشرف نے ابتدا میں استعفیٰ دینے سے انکار کیا اور جب اتحادی حکومت نے ان کی برطرفی کے لیے باضابطہ کارروائی شروع کی تو مواخذے کے حتمی انجام تک پہنچنے سے پہلے انہوں نے رضاکارانہ طور پر عہدہ چھوڑ دیا۔

سابق صدر پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی کے قتل اور نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے بعد 62 ججز کی ’غیر قانونی قید‘ سے متعلق مقدمات میں بھی نامزد کیا گیا تھا، تاہم مارچ 2013 میں سندھ ہائی کورٹ نے انہیں تینوں مقدمات میں حفاظتی ضمانت دے دی۔

سال 2010 میں سابق فوجی حکمران نے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کا آغاز کیا۔

انتقال کی افواہیں
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے بھی متعدد بار سابق صدر اور آرمی چیف جنرل مشرف کے انتقال کی افواہیں منظر عام پر آئیں، جس پر اہل خانہ کی جانب سے بارہا تردید کا بیان جاری کیا گیا۔

پرویز مشرف کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ ماہ سے شدید علالت کے باعث دبئی کے ہسپتال میں داخل ہیں، ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے سابق آرمی چیف کے اہلخانہ نے بیان جاری کیا ہے کہ پرویز مشرف ’خرابی صحت کے اس مرحلے میں ہیں جہاں صحت یابی ممکن نہیں اور اعضا خراب ہو رہے ہیں۔‘

پرویز مشرف کے گھر والوں کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ان کی روزمرہ زندگی میں آسانی کے لیے دعا کریں۔‘

پرویز مشرف کو کونسا مرض لاحق تھا؟
ذرائع کے مطابق پرویز مشرف ایمالوئڈوسس نامی ایسی بیماری میں مبتلا تھے، جس میں پروٹین کے مالیکیول درست طریقے سے تہہ نہیں ہوتے، اس لیے اپنا کام نہیں کر پاتے۔ ایمالوئڈوسس میں پروٹین کا مالیکیول بنتا تو درست طریقے سے ہے، لیکن فولڈنگ میں گڑبڑ ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔

یہ ایک دائمی میٹابولک بیماری ہے جس میں دل ، گردے، جگر اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچتا ہے۔

واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف 18 مارچ 2016 سے متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں علاج کی غرض سے مقیم تھے۔