تازہ اسپیشل فیچر

26 ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔۔

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) بالآخر 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہوگئی، جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہوگیا، ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیئے گئے ہیں، آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہوگیا۔

اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نے آئینی ترمیم کے اس عمل سے خود کو دور رکھا اور اس کا بائیکاٹ کیا مگر ایوان میں اور ایوان کے باہر شور شرابا نہیں کیا، بالکل اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے نئے چیف جسٹس کے تقرر کے معاملے پر بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کا بھی بائیکاٹ کیا مگر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی تقرری کے عمل کو متنازع نہیں بنایا، آئینی ترمیم اور نئے چیف جسٹس کے تقرر کے بعد بظاہر ملک میں ایک استحکام کی سی فضا پیدا ہوئی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم اور اس کے بعد چیف جسٹس کی تقرری سے متعلق معاملے پر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کوئی بڑا ردِعمل آسکتا ہے، کئی حلقے سوالات اٹھا رہے تھے کہ ججز خصوصاً سپریم کورٹ کے سینئر جج صاحبان کا اس پر ردِعمل کیا ہوگا؟ کیا ٹاپ تھری میں سے کوئی مستعفی ہو سکتا ہے؟ مگر سپریم کورٹ سے آنے والی خبروں نے ان تمام قیاس آرائیوں کو زائل کر دیا ہے۔

سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے نامزد چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی اور انہیں مبارک باد پیش کی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس مبارک باد پر مثبت ردِعمل دیتے ہوئے اسے قبول کیا، نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس منصور علی شاہ کے چیمبر میں بھی گئے اور جسٹس منصور علی شاہ سے بھی مبارکباد لی، اس کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد بلال، جسٹس مسرت ہلالی اور اٹارنی جنرل سمیت کئی اہم عدالتی شخصیات نے نئے چیف جسٹس آف پاکستان کو مبارک باد دی۔

پاکستان کی مختلف بار کونسلز نے بھی جسٹس یحییٰ آفریدی کو مبارک باد پیش کی، سندھ، لاہور، پشاور، بہاولپور اور اسلام آباد کی بار کونسلز نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی نامزدگی کا خیر مقدم کیا اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا، یعنی اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو بنچ اور بار دونوں کی جانب سے نئے طریقہ کار کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کو نہ صرف تسلیم کیا گیا ہے بلکہ اسے خوش آئند قرار دیتے ہوئے آگے بڑھنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔

اگرچہ بارز کے کچھ گروپس اس ترمیم اور اس کے بعد ہونے والی تقرری کے طریقہ کار پر تنقید بھی کر رہے ہیں مگر عدلیہ کے اس ردِعمل کے بعد کوئی بڑی وکلا تحریک شروع ہونے کا امکان نظر نہیں آتا، گزشتہ روز نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے عدالتی سٹاف کو بریفنگ کیلئے بلایا اور سپریم کورٹ کے مختلف وِنگز کے سربراہان نے چیف جسٹس کو اپنے متعلقہ امور پر بریفنگ دی، صورتحال بتا رہی ہے کہ عدلیہ میں توقعات کے برعکس سب اچھا ہے۔

صرف یہی نہیں برطرف ملازمین بحالی کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کیس میں آئینی سوال ہے، 26 ویں آئینی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ آئینی کیسز آئینی بنچز سنیں گے، اب آئینی بنچز بنیں گے اور وہی یہ کیس سنیں گے، جس کے بعد عدالت نے درخواستیں آئینی بنچز کو بھجوا دیں، مسابقتی کمیشن سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایک اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے یہ سوال سپریم کورٹ میں ہر روز اُٹھے گا کہ یہ کیس عام بنچ سنے گا یا آئینی بنچ سنے گا؟

وکیل فروغ نسیم نے عدالت کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی کیسز اب آئینی کیسز بن چکے ہیں، سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی جسٹس یحییٰ آفریدی کو مبارک بادیں اور کیسز کی سماعت کے دوران آئینی عدالت سے متعلق ریمارکس بتا رہے ہیں کہ عدالتِ عظمیٰ آئین میں ہونے والی اس 26ویں ترمیم کو قبول کر چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی 26 اکتوبر کو اپنے عہدے کا حلف لیں گے اور معاملات خوش اسلوبی سے چلیں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں، یہ درخواستیں اب سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر مشتمل آئینی بنچ سنے گا جس کی تشکیل ابھی ہونا باقی ہے۔

نہ صرف سپریم کورٹ کے اختیارات کو آئینی بنچز کی تشکیل کے ذریعے تقسیم کر دیا گیا ہے بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت سے متعلق ایک بند باندھ دیا گیا ہے، چیف جسٹس کا تقرر تین سال کے لیے ہوگا تاوقتی کہ وہ خود مستعفی نہ ہو جائیں یا 65 سال کی عمر کو نہ پہنچ جائیں، اگر تین سال کی مدت پوری کر لی اور ریٹائرمنٹ کی مدت ابھی باقی ہے تو بھی چیف جسٹس ریٹائر ہوجائیں گے۔

آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کی حقیقی جو رسڈکشن تبدیل کر کے آئینی بنچز کو منتقل کر دی گئی ہے، سپریم کورٹ کی ایڈوائزری جو رسڈکشن کو بھی آئینی بنچ کو منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ مکمل انصاف کی فراہمی سے متعلق اختیارات میں بھی کمی کر دی گئی ہے، یہی وہ اختیار تھا جس میں آرٹیکل 187کا استعمال کرتے ہوئے ریلیف مانگے بغیر ہی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کی بجائے تحریک انصاف میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں صرف ہائی کورٹ سے آنے والی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہوں گی، ان میں بھی اگر کوئی آئینی سوال سامنے آیا تو یہ معاملہ آئینی بنچ کو ریفر ہو جائے گا، تمام وہ اپیلیں اور درخواستیں جن میں آئینی نوعیت کے سوالات ہیں وہ بھی آئینی بنچ کو ریفر ہو جائیں گے، آئینی بنچ کا فیصلہ 13 رکنی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا جس میں چیف جسٹس آف پاکستان، تین سینئر موسٹ سپریم کورٹ ججز، آئینی بنچ کا سینئر ترین جج، وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ، حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے دو، دو اراکینِ پارلیمنٹ اور سپیکر کی جانب سے نامزد کیا گیا نمائندہ اس میں شامل ہوگا۔

اس 13 رکنی بنچ میں حکومت کے ارکان کی تعداد 6 ہے اور اسے اپنی مرضی کا آئینی بنچ بنوانے کیلئے صرف ایک مزید ووٹ کی ضرورت ہوگی، انتخابات، سیاسی کیسز، الیکشن کمیشن سے متعلقہ ایسے کیسز، جن کے سپریم کورٹ میں 25 اکتوبر کے بعد سنے جانے سے حکومت خوفزدہ تھی، یہ کیسز اب آئینی بنچ سنے گا جس کی تشکیل کیلئے حکومت کی رائے بھی شامل ہوگی، ایسے میں اب حکومت کیلئے شاید وہ خطرہ باقی نہیں رہا جو اس نے خود پر سوار کر رکھا تھا۔