ملک دشمنوں کا جوج کو کمزور بنانے کا یجنڈا کامیاب نہیں ہونے دینگے منور حسن

ملک دشمنوں کا جوج کو کمزور بنانے کا یجنڈا کامیاب نہیں ہونے دینگے منور حسن

امریکہ کے وکیل جماعت اسلامی کو ہدف بنا رہے ہیں ،بیانات کے گولے داغ کر نفاق پیدا نہیں کیا جاسکتا کہا جاتا ہے کہ پہلے ڈرون حملے پاکستانی سرزمین سے ہوتے تھے اب باہر سے ہورہے ہیں یہ کیسے ممکن ہے ؟ مشرقی پاکستان میں فوج کا ساتھ دیا اب بھی قومی اداروں کے ساتھ ہوں گے، ’’دنیا کو انٹرویو‘‘

لاہور (سلمان غنی) جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ پاکستان کے دشمن ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے ہماری مسلح افواج کو کمزور بنانے کے ایجنڈا پر ہیں ہم انہیں کامیاب نہیں ہونے دینگے اور اسکا عوامی اور سیاسی سطح پر مقابلہ کرینگے ۔ دہشت گردی کی جنگ امریکہ نے ایک خاص ایجنڈا کے تحت ہم پر مسلط کی اور اس کی وجہ سے ہی پاکستان نہ صرف دہشت گردی کا شکار ہوا بلکہ ہمارا صنعتی’ تجارتی اور کاروباری عمل معطل ہوکر رہ گیا ہم پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ سے باہر لانے اور ڈرون حملوں کی بندش کیلئے اپنا بھرپور سیاسی دباؤ بروئے کارلائیں گے ۔ منتخب اور عسکری قیادت نے خود اعتراف کیا ہے کہ ڈرون حملے ہماری مرضی کے خلاف ہو رہے ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ ملکر ایک مضبوط مؤقف اپنانا ہے لہٰذا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ بیانات کے گولے داغ کر محب وطن قوتوں کے درمیان نفاق کی دیوار کھڑی کرسکتا ہے تو وہ کسی بھول میں ہے ۔ہمیں اپنی ذات سے زیادہ ملکی مفاد عزیز ہے امریکہ کے بعض وکیل آج جماعت اسلامی کو ہدف بنائے ہوئے ہیں یہ پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ دنیا نیوز اور روزنامہ دنیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دہشت گردی کی جس جنگ میں حصہ دار بناہے اس میں ہمارا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ ڈرون حملے دہشت گردی کیخلاف جنگ کا ہی عکس ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین سے ہوتے تھے اب باہر سے ہو رہے ہیں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جتنی جلد ممکن ہو ڈرون حملے بند کئے جائیں اور دہشت گردی کیخلاف جنگ سے جان چھڑائی جائے ۔ اگر یہ دونوں کام نہیں ہو پاتے بلکہ ایک کام نہیں ہو پاتا تو دوسرا بھی نہیں ہوگا اور دوسرا نہیں ہوگا تو دہشت گردی کی فضا موجود رہے گی۔دہشت گردی کے سدباب کیلئے اے پی سی نے جو اختیار حکومت کو دیا تھا حکومت اسے کس حد تک ایڈریس کر پائی ہے اس کیلئے جوابدہ وہ خود ہے ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ جنگ جو میدان کے اندر امریکہ اور اس کے حواریوں نے افغانستان میں ہاری ہے وہ جنگ تہذیب و تمدن’ معاشرت اور اخلاقی دائرے میں مسلمانوں نے جیتی ہے ۔ اس فتح کو چھیننے اور اسے فراموش کرنے کیلئے تدبیریں بھی جاری ہیں اس کیلئے اربوں کھربوں ڈالر جھونکے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ اور امریکیوں سے دشمنی نہیں ۔ہمارا اختلاف ہماری تہذیب وتمدن سے انکار اور اپنے رویوں اور اقدامات پر غیرضروری اصرار ہے ’ حکمران مرعوب ہوسکتے ہیں ہم نہیں۔ انہوں نے ایک سوال پرکہا کہ میرے جن الفاظ کو بنیاد بنا کر جماعت اسلامی اور مجھے ٹارگٹ کیا گیا ان الفاظ اور میری جانب سے اٹھائے جانے والے سوال کو سننے کی زحمت بھی نہیں کی گئی جس میں میں نے مفتیان اور علماء کرام سے امریکہ کا ساتھ دینے والوں کے متعلق رائے طلب کی تھی۔ البتہ اس رجحان سے ہم محظوظ ضرور ہوئے ہیں کہ جو کل تک بیرونی ایجنڈا پر ہماری مسلح افواج کو ٹارگٹ کرتے اور کوستے نہیں تھکتے تھے وہ بھی ہمارے خلاف فوج کی ہمنوائی کرتے نظر آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی اپنی ایک تاریخ ہے ہم نے تو کل مشرقی پاکستان میں بھی مضبوط پاکستان کیلئے اپنی فوج کا ساتھ دیا تھا اور آج بھی ہمارا عزم ہے کہ ملکی استحکام اورقومی مفادات کے تحفظ کیلئے حکومت اور قومی اداروں کے ساتھ کھڑے ہونگے لیکن وہ لوگ جنہوں نے ایک بے بنیاد بات کو جواز بنا کر ہمیں ٹارگٹ کیا آنے والے حالات اور معاملات میں وہ کب تک فوج کی مدح سرائی کریں گے اس پر نظرر کھنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کو روگ آرمی قرار دینے ’ فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے اور اس کے کردار پر انگلیاں اٹھانے والے کیا اب راہ راست پر آگئے اب کب تک اس رائے پر قائم رہیں گے ’ یہ دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ دہشت گردی کی آگ سے نجات پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ بدقسمتی سے مختلف وجوہ پر اسے پیچیدہ بنا دیا گیا ہے جسے بیرونی طاقتوں اور خصوصاً امریکہ کے کردار اور مفادات نے مزید الجھا دیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں ان حالات کیلئے ایک ہمہ جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ بھارت سے دوستی پر حکومتی روش پر بھی ہمیں شدید اعتراض ہے کیونکہ امریکہ بھارت اور بعض مغربی قوتوں کا اس پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں انارکی و اشتعال پیدا کرکے یہاں ناکام ریاست کی صورتحال طاری کی جائے ۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران بھارت سے دوستی اور اسے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کیلئے بے چین اور مضطرب ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت سے دوستی کا راگ الاپنا کشمیریوں کے ساتھ دشمنی کرنے کے مترادف ہے ہم اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے ۔ بھارتی حکام اور حکمران پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگاتے ہیں اور ہم جواب میں خاموشی اختیار کرلیتے ہیں لہٰذا بھارت سے تعلقات کو کشمیرپرمذاکرات ’ پانی سمیت سنجیدہ مسائل سے مشروط کیا جانا چاہیے ۔ منور حسن

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں