پاکستان سے پورنوگرافی , حقائق یہ ہیں !

پاکستان سے پورنوگرافی , حقائق یہ ہیں !

پاکستان سے انٹرنیٹ پر پورنو گرافی اپ لو ڈ کر نے کے حوالے سے اعدادو شمار میں بہت زیادہ مبالغہ آمیزی کی جا تی ہے

سرفراز چودھری(ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے ) پاکستان سے انٹرنیٹ پر پورنو گرافی اپ لو ڈ کر نے کے حوالے سے اعدادو شمار میں بہت زیادہ مبالغہ آمیزی کی جا تی ہے ۔ایف آئی اے میں جب سے سائبر کرائم سرکل وجو د میں آیا ہے میں اس کا ڈپٹی ڈائریکٹر ہوں اور ہمارے پاس صرف 3ایسے کیسز ہیں جو سرگودھا، جھنگ اور لیہ سے ہیں جھنگ کے کیس پر اتنا واویلا ہو رہا ہے مگر حقائق کچھ اور ہیں میں نے ملزم سے مکمل تفتیش کی ہے ،وہ یو ای ٹی یونیورسٹی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ الیکٹریکل انجینئر ہے ،اس نے سب کچھ تسلیم کیا ہے کہ وہ اپ لوڈ کرتا تھا لیکن اس نے آج تک کسی سے کو ئی جنسی تعلق قا ئم نہیں کیا ۔اس کا اپنا سٹودیو نہیں تھا کہ وہ بچوں کو بلا کر اس کی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کرتا ، اسے بیرونی ممالک سے سے جوویڈیو اچھی لگتی تھی ، اسے اپنی ویب سائٹس پر شیئر کر دیتا تھا ۔سرگودھا کا ملزم جیل میں ہے وہ بچوں کے ساتھ زیا دتی کرتا تھا،اسکی ویڈیوز بھی بناتا تھا اور لوگوں کے ساتھ مل کر بھی ایسا کرتا تھا ۔اس میں جو بچے رپورٹ ہوئے ،وہ صرف 4تھے ، ڈارک ویب کے بارے میں جو تاثر یہاں بن چکا ہے وہ بھی غلط ہے جیسے امریکہ میں عصمت فروشی کو سیکس ورکر کہا جاتا ہے اسی طرح پورنو گرافی جس میں چالڈپورنو گرافی بھی شامل ہے کو ڈارک ویب کا نام دے دیا گیا ،یہ کوئی مخصوص اصطلاح نہیں اور اس کا آسانی سے کھوج لگایا جا سکتاہے ۔اسی طرح بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں جیسے بچے کے ساتھ زیادتی یہاں پر ہو رہی ہو اور اسے دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھا جا رہا ہو ، جیسے ملزم پاکستان میں بیٹھ کر انٹرنیٹ استعمال کررہا ہو لیکن ایجنسیوں اور حکومتی اداروں کو یہ نظرآئے کہ وہ جنوبی افریقہ میں بیٹھا ہوا ہے ۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ دو کمپیوٹرز کو انٹر نیٹ کے ذریعے باہم ملایا جاتاہے ،یہاں بیٹھ کر وہاں کے کمپیوٹر کو میپ کر لیا جاتاہے ،یہاں پر انٹرنیٹ وہاں کا استعمال ہو رہا ہوتا ہے اور سکرین بھی وہاں کی استعمال ہورہی ہوتی ہے لیکن نظریہاں پر آرہا ہوتاہے ۔لیکن اس کا توڑ ہم نے 2008 میں نکال لیا تھا اور اب ہم ایک منٹ میں بتا دیتے ہیں کہ یہ پراکسی ہے یا نہیں ۔ڈارک ویب ہو یا کوئی بھی خفیہ ویب سائٹ ،ہم سے وہ نہیں چھپ سکتی ۔ڈارک ویب یا خفیہ ویب سائٹس کے ذریعے لوگ شیطانی فعل براہ راست دیکھ سکتے ہیں اور اگراس طرح کا واقعہ رپورٹ ہوتاہے تو ہم اسے باآسانی پکڑ سکتے ہیں ۔زمینی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی محکمے میں ایسا شعبہ نہیں ، جس میں ایک ٹیم بیٹھ کر خود سے شکایات سامنے لا رہی ہو کہ ڈارک ویب یا کسی اور معاملے میں کیا ہورہا ہے ۔ہم امریکہ جتنے وسائل کے حامل ملک نہیں ہیں کہ ایسے خصوصی شعبے بنا سکیں لہذا جب کوئی واقعہ رپورٹ ہوتا ہے تو ہم اس پر کارروائی کرتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ یہاں پر ایسا نظام ہو کہ جو ایسے ملزموں کو پکڑ سکے جو پاکستان کا آئی پی ایڈریس استعمال کر کے ایسی حرکتیں کررہے ہیں اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ،ایسی حرکتوں کو روکنا بنیادی طور پر پی ٹی اے کی ذمہ داری ہے ۔چاہے وہ نفرت انگیز موادہو یا پھر پورنو گرافی ،ایسی ویب سائٹس کی نگرانی کرنا اور ان کو بند کرنا قانون کے مطابق پی ٹی اے کی ذمہ داری ہے ۔ وہ کیٹیگریز بنا کر ان کی نگرانی کرے اورجو چیز نظر آئے ، وہ متعلقہ اداروں کو بتائے ،مثال کے طور پر وہ ایک ایسی چیز دیکھتے ہیں جس پر ایف آئی آر ہو سکتی ہے اور ایف آئی اے اس پر کارروائی کرسکتی ہے تو ایف آئی اے کے سیل کو بھیجے ،جن کو بند کرنے کی ضرورت ہو ،ان کو بندکرے ۔میرے نقطہ نظر سے وہ ابھی اتنا طاقتورادارہ نہیں وہ ایک توہین آمیز فلم بند نہیں کرا سکے تھے اور یوٹیوب کو کئی سال تک بند کرنا پڑا،حالانکہ یہ کوئی حل نہیں تھا کہ ایک یوآر ایل بند کرنے کے بجائے ایک سہولت ہی لوگوں سے چھین لی جائے ۔ کچھ لو گ ملک کے خلاف پراپیگنڈا کر تے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورنو گرافی کے دھندے میں پاکستان کا مواد پانچ فیصد سے بھی کم ہے ۔حقائق چیک کیے بغیر سنی سنائی باتیں پھیلا دی جا تی ہے ، جیسا کہ زینب کیس کے ملزم عمرا ن علی کے 37 بینک اکاؤنٹس کا معاملہ ہے ہم نے رپورٹ بنا کر سپریم کورٹ بھجوا دی کہ ملزم کا کوئی بینک اکائونٹ نہیں ہے ۔ ایف آئی اے ٹیم نے گلی محلوں میں اس حوالے سے لوگوں سے تصدیق کی کہ ایسے خفیہ اکائونٹ ہوں جو ایجنسیوں کے علم میں نہ ہوں یا پاکستان میں وہ نظر نہ آرہے ہوں ۔ہم نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ لوگ بے نامی اکائونٹ اوپن کرالیتے ہیں ۔ ان ساری تحقیقات کے بعد اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملزم کا کا کوئی اکائونٹ نہ تو پاکستان میں ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ۔ آخر میں یہ کہوں گا کہ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں پر سخت نظر رکھیں ، باراک اوباما سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ کی بیٹی کا فیس بک اکائونٹ ہے تو اس کا جواب تھا کہ میں نے اس کو اجازت نہیں دی ۔ابھی وہ چھوٹی ہے ،جب وہ 18سال کی ہو جائے گی تب اس کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنا فیس بک اکائونٹ بنا ئے یا سوشل میڈیا استعمال کرے ۔لیکن یہاں پر ایسا ہوتا ہے کہ جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کا فیس بک اکائونٹ بنا دیا جاتاہے ۔کوئی فوت ہوتا ہے تو اس کے جنازے کے تصاویر اپ لوڈ کر دیتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں والدین،استاد اور میڈیا اس بات کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے عوام کو گلوبل ویلیج میں تو پھینک دیا لیکن یہ بھول گئے کہ جیسے ہم اپنے گلی محلوں میں گالم گلوچ کرتے تھے ،جھوٹے الزامات لگاتے تھے ،وہی چیزیں اب سوشل میڈیا پر لے آئے ہیں ۔ ہماری وہ حرکات جو پہلے باہر کی دنیا نہیں دیکھ پاتی تھی ،وہ اب دنیا دیکھ رہی ہے ۔ گھر میں کمپیوٹر ایسی جگہ پر رکھا جائے ،یہاں پر آتے جاتے گھروالوں کی نظر پڑتی رہے تاکہ بچوں کو اس بات کا ڈر رہے کہ اگرمیں نے کوئی غلط چیز چلائی تو کوئی دیکھ لے گا ۔پی ٹی اے اور حکومت پاکستان اپنا برائوزر بنائے اس میں خو د کار فلٹر ہوتاہے جس سے ہر چیز ہو کر آگے سکرین پر نظر آتی ہے ۔مثال کے طور پر کتے کا لفظ لکھنے پر وہ نہیں کھلے گی،اگر سیکس یا پورنو گرافی کا لفظ آئے تو اس کو نہیں کھلنے دے گی ۔اسی طرح اس براؤزر میں ایسے الفاظ اور چیزیں اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں ۔لہذا اس برائوزر کو چند مہینوں میں پورے پاکستان میں زیر استعمال لا یا جا سکتا ہے جو اس طرح کی تمام غلاظت کو روک دے گا ۔یہ برائوزر بنانا صرف ایک مہینے کا کام ہے ،اصل مسئلہ اس پر عملدرآمد ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں