چابہار سے پاکستان کو کتنا خسارہ ؟

چابہار سے پاکستان کو کتنا خسارہ ؟

اٖفغانستان نے 80فیصد تجارتی سرگرمیاں کراچی سے ایران کی بندرگاہوں بندر عباس اور چابہار منتقل کر دیں۔ یہ تبدیلی چابہار بندرگاہ کے افتتاح کے صرف دو ماہ بعد آئی ہے

(ایشیا ٹائمز ) اٖفغانستان نے 80فیصد تجارتی سرگرمیاں کراچی سے ایران کی بندرگاہوں بندر عباس اور چابہار منتقل کر دیں۔ یہ تبدیلی چابہار بندرگاہ کے افتتاح کے صرف دو ماہ بعد آئی ہے ، اس کی ایک وجہ اسلام آباد کی جانب سے نئے تجارتی ٹیرف نافذ کرنا تھا، جس کے بعد امکان ہے کہ افغان ٹرانزٹ میں پاکستان کا کردار بہت کم ہو جائے گا۔ پاکستانی تاجروں کو یقین ہے کہ افغان تجارت بالآخر سٹریٹجک چابہار بندرگاہ منتقل ہو جائیگی، جس کے پہلے مرحلے شاہد بہشتی پورٹ کی تکمیل گزشتہ سال ہوئی تھی۔ امکان ہے کہ چابہار بندرگاہ کے مکمل فعال ہونے کے بعد پانچ ارب ڈالر کی افغان تجارت آئندہ صرف اسی راستے سے ہو گی۔ گزشتہ سال نومبر میں افغان چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے میڈیا سے کہا کہ تجارتی سامان کی نقل و حرکت کیلئے افغانستان مزید پاکستان کا محتاج نہیں رہے گا، کیونکہ اس مقصد کیلئے چابہار بندرگاہ استعمال کر سکتا ہے ۔ رواں مالی سال کے دوران بارڈر کی بندش، عسکری جھڑپوں اور نئے تجارتی ٹیرف کی وجہ سے افغانستان کیساتھ تجارت میں 2ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی،2016میں تجارت کا حجم 2.5ارب ڈالر تھا جوکہ دوطرفہ تعلقات میں بگاڑ کی وجہ سے کم ہو کر 50کروڑ ڈالر رہ گیا ہے ۔ پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر ضیا الحق سرحدی نے کہا کہ دو طرفہ تجارت کو سیاسی اور علاقائی تنازعات میں دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ انہوں نے دوطرفہ تجارت میں کمی کا ذمہ دار سرحدی کشیدگی، ٹیرف اور چابہار بندرگاہ کو قرار دیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارت افغان تاجروں کو بھاری مراعات کی پیشکش کر چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اٖفغانستان نے بھارت کیلئے دوسرا فضائی راستہ کھول کر ممبئی اور کابل کو براہ راست ملا دیا ہے ، اس راستے سے پہلی فلائٹ میں 40ٹن خشک میوہ جات ، تازہ پھل اور جڑی بوٹیاں بھارت بھیجی گئیں۔ افغانستان کیساتھ دوطرفہ تجارت میں 2ارب ڈالر کی کمی پاکستانی معیشت کو بری طرح متاثرکر سکتی ہے ، جوکہ پہلے سے تجارتی خسارے اور زرمبادلہ کے بگڑے توازن کا شکار ہے ۔ دسمبر میں محکمہ شماریات کے گزشتہ سال کے جاری کر دہ اعدادوشمار مایوس کن معاشی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں،جس کے مطابق جولائی سے نومبر 2017تک پاکستان کا تجارتی خسارہ 15.03ارب ڈالر کی ہوشربا حد تک پہنچ گیا، جس کی بڑی وجہ سی پیک منصوبے کی وجہ سے درآمدات میں 16.48فیصد اضافہ تھا۔ وزارت خزانہ کے ایک اہلکار نے بڑھتے تجارتی خسارے پر تشویش کا اظہا رکرتے ہوئے کہاکہ اگر شرح نمو جمود کا شکار رہی ، تو مالی سال 2017-18کے آخر تک خسارہ 35ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ بڑھتے تجارتی خسارے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر سخت دباؤ ہے ، جوکہ بتدریج کم ہور ہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق زرمبادلہ کے موجودہ ذخائر 14.66ارب ڈالر ہیں، جن میں سکوک بانڈز کی فروخت سے حاصل ہونیوالے 2.5ارب ڈالر بھی شامل ہیں، جبکہ جون 2016کے آخر تک پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کی سروسنگ کی مد میں 6ارب ڈالر ادا کرنا ہیں،ادھر امریکہ پاکستان کی فوجی امداد منجمد کرنے کا اعلان کر چکا ہے ۔ پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر دارو خان اچکزئی نے بتایا کہ تازہ پھلوں، خشک میوہ جات، ماربل اور گرینائٹ جیسی افغان اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے کے بعد پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ میں مسابقت نہیں کر سکتا تھا، جس کے باعث تجارتی سرگرمیوں کا رخ بندرعباس اور چابہار کی بندرگاہوں کی جانب ہو گیا۔ پاکستان اور افغانستان کی گمراہ کن تجارتی پالیسیوں نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے تاجروں کو بھاری نقصان پہنچایا۔ حکومت پاکستان کی اولین ترجیح سی پیک منصوبے ہیں، وہ تمام وسائل اور توانائیاں اس منصوبے کی جلد تکمیل پر مرکوز کئے ہوئے ہے ۔ ضیا الحق سرحدی نے افسوس کااظہا رکرتے ہوئے کہا کہ حکومت سی پیک کے تحت تجارت کو فروغ دینا چاہتی ہے ، جبکہ افغان ٹرانزٹ اور دوطرفہ تجارت کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہی ہے ۔ جیسے جیسے یہ دوطرفہ تجارت سکڑ رہی ہے ، چابہار بندرگاہ افغانوں کیلئے نفع بخش متبادل بن رہی ہے اورپاکستان پر معاشی بحران کا خطرہ منڈلا رہا ہے ، یہ خدشہ بھی ہے کہ سی پیک بڑھتے خلا کو پر کرنے میں شاید ناکام رہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں