چیئرمین سینیٹ : اپوزیشن کا پہلا امتحان
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مضبوط اپوزیشن بنانے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں ،اس کے لئے مختلف آپشنز سامنے آرہے ہیں
(دنیا کامران خان کے ساتھ) مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مضبوط اپوزیشن بنانے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں ،اس کے لئے مختلف آپشنز سامنے آرہے ہیں لیکن دونوں جماعتوں کو یہ ثبوت دینا ہوگا کہ وہ واقعی دل سے ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں اور اپوزیشن کا ایک مضبوط اتحاد بننے جا رہا ہے اگر ایسا ہوا تو تحریک انصاف کی حکومت کیلئے شدید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں کیونکہ تحریک انصاف سینیٹ میں حد درجہ کمزور ہے ۔حالیہ دنوں میں اہم پیش رفت ہوئی ہے ،دو روز قبل مریم نواز اور بلاول بھٹو کی ملاقات ہوئی تھی،گزشتہ روز بلاول بھٹوکی شہباز شریف سے ملاقات ہوئی ہے لیکن یہ ملاقاتیں اس وقت بامعنی نظر آئیں گی جب واقعی انکے ٹھوس نتائج سامنے آئینگے ،اسکے ثبوت کیا ہونگے وہ ہم آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور اسکا سب سے بڑا ثبوت سینیٹ میں نظر آئیگا۔ سینیٹ میں مضبوط ترین اپوزیشن ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی پوزیشن جاسکتی ہے سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی 66سینیٹرز کے ساتھ دو تہائی اکثریت ہے جن میں مسلم لیگ ن کے 31 پیپلز پارٹی کے 21 جے یو آئی (ف) کے 4نیشنل پارٹی کے 5پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 3جماعت اسلامی کے 2اور اے این پی کا ایک سینیٹر شامل ہے ، دوسری جانب سینیٹ میں حکومتی بینچوں پر تحریک انصاف کے 14ایم کیو ایم کے 5مسلم لیگ(ف)اور بی این پی کا ایک ایک اور فاٹا سے آزاد سینیٹرز کی تعداد ملا کر تعداد 37بنتی ہے ۔کم از کم 26 ارکان کی منظوری سے آرٹیکل 61 کے تحت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کی قرارداد لائی جاسکتی ہے اور انہیں ہٹانے کیلئے 53ارکان کی ضرورت ہے گویا اپوزیشن جس وقت چاہے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی چھٹی کرا سکتی ہے اگر حزب اختلاف کا چیئرمین سینیٹ مضبوط انداز میں سامنے آتا ہے تو وہ صدر کی غیر موجودگی میں قائم مقام صدر بھی ہوگا ،اپوزیشن کے چیئرمین سینیٹ کی موجودگی شاید حکومت کیلئے کافی مشکل صورتحال ہوجائے ۔پچھلے سال 12 مارچ کو پیپلز پارٹی کے علاوہ جن جماعتوں کے سینیٹرز نے صادق سنجرانی کو منتخب کیا تھاوہ تمام پی ٹی آئی کے حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں،صادق سنجرانی کے انتخاب کیلئے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو سے تمام جوڑ توڑ اسلام آباد کے بلوچستان ہاؤس ،زرداری ہائوس اوربنی گالہ میں ہوا تھااور آصف زرداری کی سیاست نے خوب چمتکار دکھایا تھا۔ آصف زرداری کا کہنا تھا جب بھی میں نے کوئی دعویٰ کیا ہے ،میں نے کر کے دکھایا ہے ،یہ اس وقت کی بات تھی جب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں بنتی نہیں تھی جب یہ الیکشن ہوا تھا ،مسلم لیگ ن اور اس کے قائدین نے اس کا بہت برا منایا تھاتا ہم آج کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں کی 66 نشستوں کے ساتھ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت ہے ۔خبریں ہیں کہ اس سلسلے میں پہلا کام یہ ہوگا کہ چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کیا جائیگااور حزب اختلاف کی کسی مضبوط شخصیت کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرایا جائے گا۔اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما اورڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کوعہدوں پر لگانا اور ہٹانا ناممکنات میں شامل نہیں ہوتا،عہدوں پرتقرری اورتبادلہ معمول کاعمل ہوتا ہے ،ہوسکتاہے اس وقت کے فیصلے آج کے حالات میں درست نہ ہوں،سلیم مانڈوی والانے کہا کہ سیاسی حالات ہروقت تبدیل ہوتے رہتے ہیں، چیئرمین سینیٹ جیسے معاملات سیاست میں انہونی بات نہیں،انھوں نے بتایا کہ صادق سنجرانی کاانتخاب لیڈرشپ کا فیصلہ تھا، صادق سنجرانی کے لیے مشکلات رہیں کیونکہ وہ ناتجربہ کارتھے ،سلیم مانڈوی والانے کہا کہ جس دن اپوزیشن فیصلہ کرلے گی،چیئرمین سینیٹ کو ہٹانا مشکل نہیں، چیئرمین سینیٹ کوہٹاناسیاسی فیصلہ ہوگا،جس دن سیاسی جماعتیں چاہیں گی چیئرمین سینیٹ کوتبدیل کردیاجائیگا، سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بنے ، انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی ملاقات میں ہر چیز زیر بحث آتی ہے ،اپوزیشن کیا کچھ کرسکتی ہے اس حوالے سے گفتگو ہوتی ہے چاہے وہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی ہو یا قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتمادکا معاملہ ہو۔