چیف الیکشن کمشنر صاحب! آپ ہمیں کرپٹ پریکٹس روکنے کی سکیم نہیں بتا رہے، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ ووٹ ڈالنے کے بعد شناخت نہیں ہوسکتی : الیکشن کمیشن خاموش تماشائی نہیں بن سکتا : چیف جسٹس

چیف الیکشن کمشنر صاحب! آپ ہمیں کرپٹ پریکٹس روکنے کی سکیم نہیں بتا رہے، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ ووٹ ڈالنے کے بعد شناخت نہیں ہوسکتی : الیکشن کمیشن خاموش تماشائی نہیں بن سکتا : چیف جسٹس

ووٹ قابل شناخت بنانے کیلئے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی:چیف الیکشن کمشنر ،معاملے کی گہرائی کو سمجھیں، ویڈیو موجود لیکن کارروائی نہیں ہو رہی:چیف جسٹس، جائزہ لے رہے ہیں:سکندر سلطان ، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ جو ہوگا بعد میں دیکھیں گے جب کہ ووٹوں کی خرید و فروخت الیکشن سے پہلے ہوتی ہے :چیف جسٹس، شفاف انتخابات کے لیے تجاویز طلب، آج پھر سماعت

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات کے بارے میں الیکشن کمیشن کی پولنگ سکیم پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے شفاف سینیٹ انتخابات یقینی بنانے اور قابل شناخت ووٹ کے معاملے پر تجاویز طلب کر لیں۔ چیف جسٹس نے کہا چیف الیکشن کمشنر صاحب! آپ ہمیں کر پٹ پریکٹس روکنے کی سکیم نہیں بتا رہے ، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ ووٹ ڈالنے کے بعد شناخت نہیں ہو سکتی، کرپشن روکنا ہو گی، الیکشن کمیشن خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم،جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحیی آفریدی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ میں اوپن ووٹنگ کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا اور دیگر اراکین کمیشن پیش ہوئے ۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے ، انتخابات سے کرپشن کو ختم کرنے کا طریقہ کارالیکشن ایکٹ مجریہ 2017 ء میں موجود ہے ، ہم نے مانیٹرنگ اور پولیٹیکل فنانس ونگ کو مضبوط کیا، شکایات سیل قائم کیا ہے ، جوں ہی شکایت موصول ہوتی اس پر فوری کارروائی کی جاتی ہے ۔ عدالت نے چیف الیکشن کمشنر کے موقف کو مسترد کر دیا اور قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ سماعت کے دوران اٹھائے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا چیف الیکشن کمشنر صاحب !آپ ہمیں کرپٹ پریکٹس روکنے کی سکیم نہیں بتا رہے ،اتنے عرصے سے کیس چل رہا ہے ، آپ صرف ایکٹ کے مطابق کام کرنے کی باتیں کر رہے ہیں، آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ ووٹ دینے کے بعد اس کی شناخت نہیں کی جا سکتی؟ جو آپ کہہ رہے ہیں یہ روٹین معاملہ ہے ، پاکستان میں سینیٹ انتخابات کے اندر کیا ہوتا ہے ،سب جانتے ہیں،کرپٹ پریکٹسز پر الیکشن کمیشن خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا ، جو کچھ ہو رہا ہے اس پر الیکشن کمیشن کو اپنا ردعمل دینا ہو گا، صاف، شفاف، آزادانہ اور منصفانہ سینیٹ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے ، اگر الیکشن کمیشن اپنا کام نہیں کرتا تو پھر اسے دیکھنا عدالت کی ذمہ داری ہے ، الیکشن کمیشن آئین کے مینڈیٹ کے مطابق الیکشن کرائے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا انتخابات میں سیکریسی صرف ووٹ ڈالنے کی حد تک ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا جو ں ہی ووٹ ڈالا جاتا ہے اس کے بعد سیکریسی ختم ہوجاتی ہے ،الیکشن کمیشن اس کے بارے میں واضح موقف دے ۔ جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا جو رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے خلاف جاتا ہے اس کے خلاف کیا تعزیری کارروائی کی جاتی ہے ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کرپٹ پریکٹسز کی لمبی فہرست ہے ،الیکشن کمیشن بتائے آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت کرپٹ پریکٹسز روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا یہ عام تاثر ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے ،اسے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے چیف الیکشن کمشنر کو کہا الیکشن اتھارٹی آپ ہیں،شفاف انتخابات کے لیے پالیسی بنانے کا آئینی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے ، ہم براہ راست آپ کو نہیں کہہ سکتے لیکن سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے جو اقدامات اٹھائے ہیں کیا اس سے کرپٹ پریکٹس ختم ہو جائے گی؟۔ جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا گزشتہ سینیٹ الیکشن میں ووٹ بیچنے کی شکایات آئیں، الیکشن کمیشن نے اس پر کیا کیا،ہم یہ نہیں کہتے کہ سینیٹ الیکشن اوپن کریں لیکن ووٹ کو قابل شناخت تو بنایا جا سکتا ہے ، بیلٹ پیپرز چھاپنے کی اتھارٹی الیکشن کمیشن کی ہے ،پارٹی سربراہ کی درخواست پر سیریل نمبر یا کاؤنٹر فائل سے ووٹ کی شناخت کی جا سکتی ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دن نگرانی کا موثر نظام تو بنایا جا سکتا ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور اس ضمن میں اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں لیکن سینیٹ انتخابات میں ووٹ کو قابل شناخت نہیں بنایا جا سکتا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ طے کردیا ہے کہ جو ووٹ قابل شناخت ہو گا وہ مسترد ہو گا،قانون میں قابل شناخت ووٹ کی گنجائش نہیں،ووٹ قابل شناخت بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل سے کرپشن ہر حال میں روکنا ہو گی،معاملے کی گہرائی کو سمجھیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا تمام امیدوار کوڈ آف کنڈکٹ کے پابند ہیں، خلاف ورزی پر کارروائی ہوتی ہے چیف جسٹس نے کہا کوڈآف کنڈکٹ سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ووٹ کو ہمیشہ کے لیے خفیہ رکھا جا سکتا ہے ؟ الیکشن کمیشن آزاد اور آئین کے تحت مکمل بااختیار ہے ، کرپٹ پریکٹس کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، ووٹوں کی خرید و فروخت اور دباؤ کو روکنا بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا 2018 ء کے سینیٹ الیکشن کی ویڈیو موجود ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، کیا الیکشن کمیشن انتخابی عمل سے کرپشن ختم نہیں کرنا چاہ رہا؟ کیا الیکشن کمیشن نے عوام کو شفاف الیکشن کرانے کی تسلی دی ہے ، روزانہ دیکھیں الیکشن کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ویڈیو جوں ہی وائرل ہوئی، ہم نے نوٹس لیا ، معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں، ویڈیو کے فرانزک آڈٹ کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جو ہوا سب کو اس کا پتا ہے لیکن جس کو پتا ہونا چاہیے اُسے پتا نہیں،پورا پاکستان جانتا ہے لیکن نہیں جانتا تو الیکشن کمیشن،جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ،باغ تو سارا جانے ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کارروائی کریں، آپ کے پاس آئینی مینڈیٹ ہے ، جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم کر رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا آپ کا کام نظر نہیں آ رہا، آپ تو رولز میں پڑ گئے ہو، جو آئین کہہ رہا ہے وہی کرو،کرپٹ پریکٹس روکنے کے لیے آپ نے اب تک کیا رکاوٹیں کھڑی کی ہیں؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسمبلیوں کے انتخابات میں تنازع کی صورت میں الیکشن ٹربیونل ووٹ کی تصدیق کے لیے کاؤنٹر فائل دیکھتا ہے تو سینیٹ الیکشن میں ووٹ کی شناخت کیوں نہیں ہو سکتی؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے اٹھائے گئے نکات پر میں نے کچھ تجاویز مرتب کی ہیں، ہو سکتا ہے تجاویز الیکشن کمیشن کو قابل قبول ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا لیکن الیکشن کمیشن تو کہہ رہا ہے کہ جس طرح چل رہا ہے اسی طرح چلنے دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر کسی ووٹ کے بارے میں شکایت آئے تو تصدیق الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ۔ جسٹس یحیی آفریدی نے چیف الیکشن کمشنر کو کہا آپ اٹارنی جنرل کی تجاویز کا جائزہ لیں، آپ خود مختار ہیں لیکن اپنے اختیار کو عزت بھی دینا ہو گی، اس موقع پر رضا ربانی نے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ اٹارنی جنرل کی تجاویز حکومت کی طرف سے ہیں اور حکومت پی ٹی آئی کی ہے ،پارلیمانی جمہوریت میں تمام سیاسی جماعتیں سٹیک ہولڈرز ہوتی ہیں،انتخابات کے بارے میں کسی بھی فیصلے کے بارے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہو گا، سینیٹ الیکشن کاشیڈول آ چکا ہے اور اس وقت اس کے بارے میں کوئی نیا قانون نہیں بن سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا ہم کسی قانون میں تبدیلی کا نہیں کہہ رہے ، شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے ، الیکشن کمیشن آرٹیکل 218(3)کے لوازمات پورے کرے ، تمام سیاسی لیڈرز بھی سینیٹ الیکشن میں کرپشن کی بات کرتے ہیں، الیکشن کمیشن کو سب معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے ، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ جو ہو گا الیکشن کے بعد دیکھیں گے ، جب کہ ووٹوں کی خرید و فروخت الیکشن سے پہلے ہوتی ہے ۔ جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا مروجہ قوانین کے اندر جو ممکن ہے الیکشن کمیشن کرے ،اٹارنی جنرل نے عدالت کی اجازت سے اپنی تجاویز پڑھ کر سنائیں اور کہا انتخابات میں سیکریسی ووٹ ڈالنے کی حد تک ہے ،ووٹ ڈالنے سے پہلے اور ووٹ ڈالنے کے بعد کوئی سیکریسی نہیں ہوتی، آ رٹیکل 226 کا اطلاق انتخابات کے ہر مرحلے پر نہیں ہوتا، صرف پولنگ پر ہی ہوتا ہے ، سینیٹ الیکشن کی سیکریسی عام انتخابات سے مختلف ہے ۔ عدالت نے الیکشن کمیشن سے شفاف انتخابات کے لیے تجاویز طلب کرتے ہوئے سماعت آج بدھ تک ملتوی کر دی اورچیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کو خود پیش ہونے کی ہدایت کر دی۔ دریں اثناء پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین نے صدارتی ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے ، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ صدارتی ریفرنس واپس بھجوا یا جائے ۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے سیکرٹری فرحت اللہ بابر کی طرف سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے ، حکومتی ریفرنس سیاسی مقاصد کے لیے دائر کیا گیا ہے ، اس لیے سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ صدارتی ریفرنس واپس بھجوا یا جائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں