73 کے آئین کے بعد ایک دن آگے نہیں جاسکے ، انتخابی نظام ایک جگہ پر رک گیا ، چیف جسٹس

73 کے آئین کے بعد ایک دن آگے نہیں جاسکے ، انتخابی نظام ایک جگہ پر رک گیا ، چیف جسٹس

آئرش عدالت کا کہنا ریاست کاسٹ شدہ ووٹ کی مالک:ریمارکس ،جمہوریت کا تقاضا پارٹی سسٹم مضبوط ہو :جسٹس عطا ، اختلاف رائے کو آئینی تحفظ:جسٹس اعجاز ، اوپن بیلٹ سے ووٹر ریاست ‘پارٹی سربراہ کے ہاتھوں بھی محفوظ نہیں رہیگا:ربانی

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)سینیٹ انتخابات میں اوپن ووٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ ہمارا انتخابی نظام ایک جگہ پر رک گیا ہے ،1973کا آئین بن جانے کے بعد ہم ایک دن کیلئے بھی آگے نہیں جاسکے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جس سیاسی جماعت کو سینیٹ میں چھ نشستیں ملنی چاہئیں اگر انھیں دو نشستیں ملیں تو پھر متناسب نمائندگی کا کیا ہوگا،پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ یہ کوئی ریاضی کا سوال نہیں ،اگر حکومت خود کرپٹ پریکٹس میں ملوث ہو تو پھر کیا ہوگا،میں کوئی سیاسی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن ایک اخبار میں خبر چھپی ہے ، خبر میں کہا گیا حکمران جماعت کو کراچی فنڈز اور جلد مردم شماری کرانے کے وعدے پر سندھ سے سات ووٹوں کی یقین دہانی کرائی گئی،کیا عدالت اسے کرپٹ پریکٹس کہے گی، چیف جسٹس نے کہا ہم ہر زاویے کو دیکھیں گے ، رضا ربانی نے کہا صوبائی اسمبلی کے اراکین کا ایک گروپ قوم پرست جماعتوں کیساتھ مل کر فیصلہ کرے ہم فلاں کو ووٹ دیں گے تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے ،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا پھر اسے چھپانے کی کیا ضرورت ہے ،علانیہ ووٹ دیں،رضا ربانی نے کہا کہ ہم آئین کے متن سے ہٹ کر چیزوں کو نہیں دیکھ سکتے ،ہم ایک قبائلی اور جاگیردارانہ نظام میں رہ رہے ہیں،جب 20ریٹرننگ افسران کو تحفظ نہیں مل سکا تو عام آدمی کیسے محفوظ ہے ،وہ عام لوگ جن کے پاس ذاتی محافظوں کی فوج نہیں ہے انھیں کون تحفظ دے گا،ایسے حالات میں عام آدمی کا کیا ہوگا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہماری تاریخ اختلاف کرنے والوں سے بھری ہوئی ہے ،کوئی کھڑا ہو کر سرعام اختلاف کرے ،اختلاف رائے کرنے کو آئینی تحفظ حاصل ہے ۔ رضا ربانی نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا،آرٹیکل 10 اے کی موجودگی میں لاپتا افراد کا مسئلہ موجود ہے ،اس وقت لاپتا افراد کہاں ہیں،اعلیٰ ترین حکام کو نوٹس جاری کرنے کے باوجود لاپتا افراد کا معاملہ حل نہیں ہوا،چیف جسٹس نے کہا کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین وجود تو رکھتا ہے لیکن حقیقت میں اس پر عمل نہیں ہورہا۔ رضا ربانی نے کہا بالکل ایسے ہی ہے آئین پاکستان پر عمل نہیں ہو رہا ۔ چیف جسٹس نے کہا تو پھر کیا آئین کی خلاف ورزی کا آغاز 1973سے ہوا،رضا ربانی نے کہا میں کسی پر الزام نہیں لگا رہا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اگر کچھ گڑ بڑ ہو تو الیکشن کمیشن دیکھ سکتا ہے ، رضا ربانی نے کہا الیکشن ایکٹ میں پورا طریقہ کار موجود ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اگر اہم ثبوت چھوڑ دیں تو کرپٹ پریکٹس کی روک تھام کیسے ہوگی،رضا ربانی نے کہا کہ کچھ دن پہلے جعلی ڈگری کی بنیاد پر ایک سینیٹر کی نااہلی کی مثال موجود ہے ، بیلٹ پیپر کی شناخت کو ظاہر کرنا آئینی خلاف ورزی ہے ، ویسے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کو بیلٹ پیپر تک رسائی ہوتی ہے ،ڈیپ سٹیٹ کو نتائج کا بھی پتا ہوتا ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد بیلٹ پیپرز سیل کر دئیے جاتے ہیں، رضا ربانی نے کہا ڈیپ سٹیٹ کو سب کچھ پتا ہوتا ہے ،آپ کو بھی معلوم ہے ، ویڈیو بنا لی جاتی ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہر بات ایسے نہیں ہے جیسے آپ کہہ رہے ہیں،یہاں اپیلوں کا حق حاصل ہوتا ہے اور انصاف کا بول بالا ہوتا ہے ،رضا ربانی نے کہا کہ میرے جیسا بندہ تو انصاف کی فراہمی سے مایوس ہو کر خودکشی کر لے گا،چیف جسٹس نے کہا ایسے نہ کہیں آپ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، الیکشن ایسے شخص کو لڑنا چاہیے جو مضبوط اعصاب کا مالک ہو،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اچھی جمہوریت کیلئے سیاسی جماعتوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے ،اگر سیکریٹ بیلٹ کا طریقہ کار جاری رہے گا تو لوگ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے رہیں گے ،انہوں نے رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ جس سسٹم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں وہ انفرادی ہیروازم کو فروغ دیتا ہے ،جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ پارٹی سسٹم مضبوط ہو، جب تک ہم عرصہ دراز سے جاری طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لائیں گے جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی ،رضا ربانی نے کہا کہ ملک میں سول بالادستی کو قبول ہی نہیں کیا گیا،نظام کو آگے جانے ہی نہیں دیا گیا ، میں صورتحال کو جوں کا توں رکھنے کے حق میں نہیں لیکن انتخابات میں سیکریسی ختم کرنے سے ووٹر کوحاصل تحفظ ختم ہوجائے گا ،پارلیمانی نظام زوال کی طرف جا رہا ہے ، میں کسی ایک دور کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا،صرف پارلیمان ہی نہیں عدلیہ بھی اس عمل سے متاثر ہوئی،عدلیہ نے بھی عملاً بہت سے مشکلات دیکھی ہیں،عدلیہ نے کسی حد تک استحکام حاصل کر لیا لیکن پارلیمان نہیں کر سکی،اوپن بیلٹ سسٹم کے تحت ووٹر ناصرف ڈیپ سٹیٹ بلکہ ریاست اور پارٹی سربراہ کے ہاتھوں بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ آرٹیکل 226 میں ترمیم کا بل سینیٹ میں زیرالتوا ہے ، آرٹیکل 226 کے سینیٹ پر اطلاق نہ ہونے کا آرڈیننس بھی آچکا ہے ،1973 کے آئین میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے علاوہ ہر الیکشن خفیہ نہیں تھا، اٹھارہویں آئینی ترمیم میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے الیکشن دوبارہ اوپن بیلٹ سے منعقد کئے گئے ، 1985 میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے الیکشن بھی خفیہ ووٹنگ سے کرنے کی ترمیم ہوئی، وزیراعظم کا الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کا مقصد پارٹی ڈسپلن تھا،سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کے الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوتے ہیں کیونکہ یہ عہدے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوتے ہیں، سیاسی وابستگی سے بالاتر عہدے کیلئے ووٹنگ کا عمل خفیہ رکھا گیا، سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، صوبوں اور سیاسی جماعتوں کے حقوق دو مختلف چیزیں ہیں، سینیٹ وفاقی اکائیوں کے تحفظ کیلئے ہے سیاسی جماعتوں کیلئے نہیں، اونچ نیچ کے بعد عدلیہ میں استحکام آگیا ، لیکن سیاست میں نہیں آسکا، میں نے ساری زندگی سٹیٹس کو کی مخالفت کی، خفیہ رائے شماری کا حق بھی چھینا گیا تو اراکین اسمبلی ڈیپ سٹیٹ کے ہاتھوں مشکل میں ہوں گے ،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کے مروجہ نظام کو جاری رکھنے کا مطلب منتخب نمائندوں کو پارٹی نظم کی خلاف ورزی کی اجازت دینا ہے ، چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے الیکشن پر آرٹیکل 63اے کا اطلاق بھی ہوتا ہے ، پاکستان کا آئین آئرلینڈ کے دستور سے مماثلت رکھتا ہے ، آئرش عدالت کے مطابق ریاست کاسٹ شدہ ووٹ کی مالک ہوتی ہے ،جسٹس عمر عطا بندیا ل نے کہا جمہوریت میں انفرادی پسند ناپسند اکثریتی رائے پر حاوی نہیں ہوتی، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انفرادیت کو مضبوط کرنے والا نظام چلنا چاہیے ،رضا ربانی نے کہا سینیٹ وفاقی یونٹس کے حقوق کا محافظ ہے ،سینیٹ انتخابات میں ممبر اسمبلی کی نااہلی سے متعلق 63 (اے )کی کوئی بار نہیں،سینیٹ سے متعلق حفیظ پیرزادہ کی متناسب نمائندگی سے متعلق تقریر قومی اسمبلی سے متعلق ہے ،چیف جسٹس نے اس موقع پر رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی دلیل یہ ہے کہ متناسب نمائندگی صرف ووٹ گننے سے متعلق ہے ،اگر سیاسی پارٹیاں تقسیم ہیں تو صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی سینیٹ میں کیسے نمائندگی ہوگی،رضا ربانی نے کہا ہوسکتا ہے کہ کسی پارٹی کی آپ کو صحیح متناسب نمائندگی نظر آئے ،کیس کی مزید سماعت آج منگل تک ملتوی کردی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں