معیشت کا پہیہ چل نہیں رہا ، آئی ایم ایف کا مطالبہ ناجائز ، جی ڈی پی 5 فیصد تک نہ لیکر گئے تو ملک کا اللہ حافظ ، بجلی نرخ بڑھانے سے کرپشن بڑھے گی ، وزیر خزانہ
6ارب ڈالرقرض معاہدہ کی شرائط پرنظرثانی ہوگی،شرح ٹیکس کم،چینی صنعتیں سپیشل اکنامک زون منتقل کرائینگے ،گردشی قرضہ بڑھنے کی وجوہات ختم کرینگے :شوکت ترین قومی اسمبلی کمیٹی میں ترجیحات کااعلان،بجٹ سٹرٹیجی پیپرپیش،عائشہ غوث نے غیرحقیقی قراردیدیا،وزیرخزانہ نے رمیش کمارکوکھری کھری سنائیں،4حکومتی بل موخر
اسلام آباد (خبرنگارخصوصی، دنیانیوز، نیوز ایجنسیاں)وزیر خزانہ شوکت ترین نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے 6 ارب ڈالر کے قرض معاہدے کی شرائط کو سخت قرار دیتے ہوئے کہا ہے آئی ایم ایف نے پاکستان سے ظلم کیا، شرائط پر نظرثانی کی جائے گی، معیشت کا پہیہ چل نہیں رہا، بجلی نرخ بڑھانے سے کرپشن بڑھے گی، آئی ایم ایف کا مطالبہ ناجائز ہے ، جی ڈی پی 5 فیصد تک نہ لیکر گئے تو ملک کا اللہ حافظ ہے ۔ ان خیالات کا اظہار شوکت ترین نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں نئی ترجیحات کا اعلان کرتے ہوئے کیا۔ فیض اللہ کموکا کی زیر صدارت کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری خزانہ کامران علی افضل نے بجٹ سٹرٹیجی پیپر پیش کیا اور کمیٹی میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین سے اس کا جائزہ لینے اور بجٹ حکمت عملی کو مزید موثر بنانے کیلئے سفارشات پیش کرنے کی درخواست کی۔ سیکرٹری خزانہ کامران افضل نے کہا ہر تین ماہ بعد ہونے والے جائزے میں آئی ایم ایف کے ساتھ اصلاحات پر نظرثانی کا عمل مسلسل جاری ہے اور متبادل بھی پیش کئے جاتے ہیں، اب جبکہ نئے وزیر خزانہ ملک میں ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں تو آئی ایم ایف کے ساتھ ہر دن ہونے والی مشاورت میں نئے آپشنز پر بات چیت ہوگی، جن پر اتفاق ہو جائے گا انہیں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا اور یہ سلسلہ ہر جائزے کے وقت جاری رہے گا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اجلاس میں کہا ہمیں تمام اختیارات پارلیمنٹ سے ملے ہیں اور ہم پارلیمنٹ کو پوری اہمیت دیں گے ، ہمیں اپنے مستقبل کے اصلاحات کے پروگراموں پر عملدرآمد کیلئے پارلیمنٹ اور اس کے اندر موجود جماعتوں کے تجربہ کار رہنمائوں اور سابق وزرا سے رہنمائی لینی ہے ان کی رائے کو اہمیت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا سال 2019 میں آئی ایم ایف سے جو قرض معاہدہ کیا گیا وہ کافی سخت ہے ، آئی ایم ایف نے ہمارے ساتھ بڑا ظلم اور نا انصافی کی، ہم ان شرائط کے ساتھ آئندہ دو سال مزید دبائو میں نہیں گزار سکتے ، اگر آئی ایم ایف معاہدے پر نظرثانی نہ ہوسکی تو آئندہ تین سال ہمیں اپنی ترجیحات کو خیرباد کہنا پڑے گا، میں نے ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر پروگرام چلایا اور ملکی تاریخ کا ایک اہم این ایف سی ایوارڈ طے کروایا اور اب بھی یہی اقدامات مکمل کرنے کا ہدف ہے ، ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر فوری کی بجائے مرحلہ وار عملدرآمد کروانے اور ساتھ ہی ساتھ معاشی بحالی اور تیز تر معاشی ترقی کیلئے اپنی ملکی اصلاحات کو آئی ایم ایف کے پروگرام کے ساتھ ساتھ چلانے کا فیصلہ کیا ہے ، ان نئی اصلاحات کیلئے ایک مختصر مدت پلان، ایک درمیانی مدت پلان اور ایک طویل مدت پلان کی سفارشات ایک ماہ میں تیار کرلی جائیں گی جنہیں پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور صنعت و تجارت سمیت تمام فریقوں کے ساتھ مشاورت کیلئے پیش کر دیا جائے گا، بجلی کے نرخوں میں جس قدر اضافہ ہوگا اسی قدر بجلی کی چوری بڑھے گی، بجلی کے نرخ بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، لوگ میٹر ریڈر کو کچھ فالتو دیکر اپنے مسائل حل کرلیں گے ، بجلی ٹیرف میں آئی ایم ایف مطالبہ ناجائز ہے ، معیشت کا پہیہ چل نہیں رہا، ٹیرف بڑھانے سے کرپشن بڑھ رہی ہے ، آئی ایم ایف کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں، ٹیرف بڑھانے سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ، ملک میں فاضل بجلی دستیاب ہے اور معاشی سرگرمیاں ماند پڑی ہیں جس سے ہمیں فاضل کیپسٹی پیمنٹس بھی کرنا پڑ رہی ہیں جن کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ایف بی آر کے حکام نے مجھے مسلسل 10 سال تک آڈٹ اور دیگر معاملات میں الجھایا اور تنگ کیا جب میں نے ثبوت پیش کئے تو میری فائل ہی گم کردی، اگر مجھ جیسے بندے کو ہراساں کرنے سے گریز نہ کیا گیا تو عام ٹیکس گزاروں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا، میں نے ایف بی آر اصلاحات میں ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے کا عمل یکسر ختم کرنے کا عہد کرلیا ہے ۔ شوکت ترین نے آئندہ مالی سال میں معاشی ترقی کی شرح 4 فیصد رہنے پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا جی ڈی پی گروتھ 5 فیصد تک نہ لے کرگئے تو آئندہ 4 سالوں تک ملک کا اللہ حافظ ہے ، جب تک ملک میں معاشی ترقی کی شرح 7 فیصد اور 8 فیصد تک نہیں پہنچ جاتی، پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو سکیں گے ۔ انہوں نے کہا فسکل اور مانیٹری پالیسیوں کو یکساں طور پر موزوں بنانا ہوگا، معاشی ترقی کا ہدف یہ ہے کہ ہم امیر اور غریب دونوں کے فائدے کا ماحول دینا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ غربت میں کمی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ہماری اولین ترجیح ہو گی۔ انہوں نے کہا چین نے 6 کروڑ نوکریوں کو آئوٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس ضمن میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ چین سے وہ صنعتیں جنہیں دیگر ممالک میں منتقل کیا جانا ہے انہیں سپیشل اکنامک زونز میں منتقل کروایا جائے اور ان میں روزگار کے ایک کروڑ نئے مواقع پیدا کئے جائیں، اس ضمن میں جلد ہی اعلیٰ سطح پر چینی قیادت سے ان صنعتوں کی پاکستان منتقلی پر بات چیت کی جائے گی، پاکستان میں نوجوان نسل کیلئے ہر سال 20 لاکھ نئی نوکریوں کا انتظام کرنا ہوگا بصورت دیگر نوجوان نسل کی بے روزگاری مسائل کا سبب بنے گی، ہم نے اور ہماری آئندہ نسلوں نے پاکستان میں ہی میں رہنا ہے لہٰذا ہمیں اس کی ترقی میں مخلص ہونا ہوگا۔ انہوں نے بتایا پاکستان میں ہر کوئی بھاری ٹیکس مراعات سے مستفید ہو رہا ہے اور ملکی معیشت کی ترقی خصوصاً برآمدات میں ان کا کردار انتہائی کم ہے ، اس مشکل کو بھی حل کیا جائے گا، گردشی قرضہ کیوں بڑھ رہا ہے اس کی حقیقی وجوہات جان کر انہیں ختم کیا جائے گا، جو ٹیکس دے رہے ہیں ان سے ان کی صلاحیت کے مطابق پورا ٹیکس وصول کیا جائے گا، جو ٹیکس نہیں دے رہے ان کے ساتھ اب کوئی نرمی نہیں ہو گی، ایف بی آر کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا، ہم نئی خود تشخیصی سکیم لائیں گے ، جنرل سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی شرح کم کریں گے ، ٹیکس اصلاحات کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ آئوٹ آف باکس حل تلاش کئے جائیں گے ، قیمتوں میں اضافہ پاکستان کے عوام کا بنیادی مسئلہ ہے ، اس مسئلے کے حل کیلئے جلد ہی اقدامات سامنے آئیں گے ، زراعت، صنعت، ریونیو، اخراجات پر کنٹرول، ہائوسنگ اور دیگر شعبوں کیلئے اہم اصلاحات ہمارے مختصر مدت اور درمیانی مدت کی اصلاحات کے پروگراموں کا حصہ ہوں گی۔ انہوں نے بتایا بجٹ میں غریب ترین آبادی کیلئے سماجی تحفظ کے احساس پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ذیلی پروگراموں کو وسعت دی جائے گی، ملک کا تمام ترقیاتی بجٹ صرف 9 شہروں میں خرچ ہوجاتا ہے ، اب اس کی اصلاح کی جائے گی، پسماندہ ترین علاقے ہمارے ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہوں گے ، اس وقت ملک میں ہزاروں بیمار صنعتی یونٹ بند پڑے ہیں اور پاکستان میں ان کی بحالی کیلئے قائم ادارہ غیر فعال ہے ، 10 ترقیاتی مالیاتی اداروں کے سربراہ مرسڈیز کاروں میں گھومتے ہیں لیکن ان بند صنعتی یونٹوں کی بحالی کیلئے اپنے پاس موجود 50 ارب روپے کو استعمال میں لانے کی پالیسی نہیں بنا رہے ، ہم جو کچھ کرسکے وہ کریں گے ، قرضوں میں اضافے کا سلسلہ روکا جائے گا اس کیلئے ریونیو میں اضافہ کیا جائے گا، نقصانات کا سبب بننے والے قومی اداروں کا کوئی مستقل حل تلاش کریں گے ، ان پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کے مسئلے کے حل کیلئے ڈاکٹر عشرت حسین نے اہم کام کیا ہے ، حکومت جن اداروں کو نہیں چلاسکتی ان کی نجکاری کر دی جائے گی، اگر 2010 سے ہر سال جی ڈی پی کے ایک فیصد اضافہ کیا جاتا تو آج پاکستان 12 ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کر رہا ہوتا، ہم ابھی بھی 5 ہزار ارب روپے کے ہدف کو عبور نہیں کرسکے ۔ اس موقع پر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ہم نے ملکی معیشت کو ضرورت سے زیادہ ریگولیٹ کردیا ہے اسے کچھ کھلا چھوڑا تو مسائل حل ہو سکیں گے ۔ انہوں نے بجٹ سٹرٹیجی پیپر کو غیرحقیقی اور خواہشات پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے حقیقت پسندانہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیر خزانہ نے انہیں نظرثانی کی یقین دہانی کروائی۔ رکن اسمبلی امجد علی خان نے کہا کہ ہمیں معیشت کے تمام سیکٹرز کی بحالی پر توجہ دینا ہوگی تب ہی ہمارے مسائل حل ہوں گے لہٰذا ہر سیکٹر کی اصلاحات طے کی جائیں۔ مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی نے ایف بی آر کی ٹیکس پالیسیوں کو سرمایہ کار دوست بنانے کی تجویز دی۔ دوران اجلاس وزیرخزانہ نے رمیش کمار کو کھری کھری سنا دیں۔ رمیش کمار نے کہا کہ شوکت عزیز سے اب تک جتنے وزیر خزانہ آئے معیشت کو استحکام نہ دلوا سکے ، آپ کو معیشت کی بحالی کیلئے پلان بنانے ہوں گے ۔ اس پر جواب دیتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ آپ مجھے نہ بتائیں کہ کیا پلان بنانے ہیں، آپ نے شوکت عزیز سے لے کر اب تمام وزیر خزانہ کو لپیٹ دیا، آپ نے تمام وزرا میں مجھے بھی شامل کردیا، میں نے آئی ایم ایف سے بہتر انداز میں مذاکرات کئے ، اس وقت آئی ایم ایف سے پروگرام کرتے ہی 40 فیصد پیسے لے لئے تھے ۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور سید نوید قمر نے ایجنڈے پر بلوں کو جلد بازی کی نذر کرنے کی بجائے ان پر تفصیلی غور کا مطالبہ کیا جس پر چاروں حکومتی بلوں کی منظوری آئندہ اجلاس تک موخر کردی گئی۔ مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی نے شوکت ترین کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے 2 سال بعد ووٹ لینے کیلئے ایک بار پھر عوام کے پاس جانا ہے ، آپ کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں تو شوکت ترین نے انہیں کہا کہ کامیابی کیلئے آپ کی دعائوں کا طلب گار ہوں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت دیکھنا چاہیے کہ آئی ایم ایف سے کیا ریلیف مل سکتا ہے ، مہنگائی بڑھ رہی ہے ، مہنگائی کو قابو کرنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں، گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران مہنگائی کم تھی، بدھ کو پریس کانفرنس میں حقائق سے آگاہ کروں گا۔ دریں اثنا وزیر خزانہ شوکت ترین کی زیر صدارت زراعت سے متعلق سب کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کسان سے صارف تک فوڈ سپلائی چین کا بغور جائزہ لیا گیا، تھوک اور پرچون کی سطح پر قیمتوں کے فرق کو کم کرنے کے امور بھی زیر غور آئے ، کاشتکار کو اس کی محنت کا بہتر اجر دینے کا نظام وضع کرنے پر خصوصی بات چیت ہوئی۔ وزیر خزانہ نے کہا حکومت زراعت کی ترقی اور بہتری کیلئے پرعزم ہے ، کورونا وبا کے دوران سپلائی میں رکاوٹوں سے چیلنجنگ صورتحال سامنے آئی ہے ، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام کیلئے قابل عمل تجاویز دی جائیں۔