پیپلز پارٹی دوبارہ جیت بھی گئی تو نتائج متنازعہ ہی رہیں گے

پیپلز پارٹی دوبارہ جیت بھی گئی تو نتائج متنازعہ ہی رہیں گے

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان نتائج زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا , انتخابی اصلاحات ممکن نہیں ہوئیں تو عام انتخابات بھی متنازعہ ہوں گے

(تجزیہ: سلمان غنی) الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی کے حلقہ این اے 249 کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر دوبارہ گنتی کے فیصلہ نے انتخابی عمل اور نتائج بارے نئی کیفیت طاری کر دی ۔ خصوصاً یہاں سے جیتے پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل کی جیت پر تلوار لٹکتی محسوس ہو رہی ہے ۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس ضمنی انتخابات کے نتائج کو ملک بھر میں زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہاہے ۔ اگرچہ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج آخری وقت پر مسلم لیگ ن کے حق میں برقرار نہیں رہے حالانکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار دوران نتائج برتری قائم رکھے ہوئے تھے کہ اچانک سحری کے وقت چند پولنگ سٹیشنز سے موصول ہونے والے نتائج نے پانسہ پیپلز پارٹی کے حق میں پلٹ دیا۔ ن لیگ نے یہ کہتے ہوئے کہ الیکشن چرا لیا گیا آسمان سر پر اٹھا لیا اور اس طرح سے انتخابی نتائج پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں محاذ آرائی کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس حلقہ میں ہونے والا بڑا اپ سیٹ پیپلز پارٹی کی جیت سے زیادہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی ہار تھی جس نے عام انتخابات میں اپنی جیتی نشست ضمنی میں ہار دی اور ان کا امیدوار پانچویں پوزیشن پر رہا۔ البتہ مذکورہ انتخاب کے نتائج نے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو آپس میں صف آرا کر دیا اور اس میں تحریک انصاف کا کردار محض سیاسی تماشائی کا بن کر رہ گیا لہٰذا اب دوبارہ گنتی کے عمل پر سب کی نظر ہے اور اب تک کی انتخابی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو دوبارہ گنتی میں جیتنے والی جماعت کے ہار کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں لیکن ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان حلقہ کی صورتحال اور نتائج اب زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے اور لگتا یوں ہے کہ دوبارہ گنتی کے عمل میں بھی اگر پیپلز پارٹی انتخابات جیتتی ہے تو ن لیگ اس فیصلہ کو بھی ہضم نہ کر پائے گی اور اس مسئلہ کے نتائج متنازعہ رہیں گے ۔یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ رمضان المبارک اور کورونا کے خوف اور موسمی شدت کی بنا پر ووٹنگ کی شرح بہت کم رہی جسے کراچی سمیت ملک بھر میں محسوس کیا گیا۔انتخابی نظام کا المیہ ہے کہ کراچی کے ساڑھے تین لاکھ ووٹرز کے اس حلقہ میں فاتح امیدوار نے صرف16 ہزار ووٹ لے کر میدان مار لیا جو کل ووٹوں کا صرف پانچ فیصد ہے جبکہ ڈالے گئے ووٹوں میں سے بھی فقط 10فیصد نے اس امیدوار کے خلاف باقی امیدواروں کو ووٹ دیا لیکن نمائندہ 5فیصد والا ہی بنا یعنی این اے 249کے تقریباً 80فیصد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ انتخابی صورتحال سے بھی یہ ظاہر ہونے لگا ہے اور اگر کسی ایک حلقہ سے اسی فیصد عوام انتخابات سے لاتعلقی ظاہر کر دیں تو اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ہمارا انتخابی نظام عوام کی نظروں میں کتنا بے وقعت ہو چکا ہے اور یہ سیاسی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ این اے 249کے انتخابی نتائج کا ایک بڑا فائدہ یہ ضرور ہوا کہ اب قومی سطح پر انتخابی اصلاحات کی ضرورت تومحسوس کی جا رہی ہے کیونکہ جب تک ہارنے والا ہار تسلیم نہیں کرے گا تب تک سیاسی سسٹم مستحکم نہیں ہوگا ۔حکومت ملک کو درپیش قومی ایشو کے حل کے بجائے اپوزیشن سے دست و گریباں نظر آتی ہے لہٰذا انتخابی اصلاحات بارے وزیراعظم عمران خان کی اپوزیشن کو پیشکش اور اپوزیشن کی جانب سے اس کو مسترد کئے جانے کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے حوالہ سے عدم اعتماد کا شکار ہیں اور اگر باہمی افہام و تفہیم سے انتخابی اصلاحات ممکن نہیں بنتیں تو آنے والے عام انتخابات کے نتائج بھی متنازعہ ہوں گے اور ملک میں افراتفری اور انتشار سب کا مقدر بنا رہے گا۔ ہمیشہ بحرانی کیفیت کے خاتمہ کی بنیادی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے اور وہ آگے بڑھ کر اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لانے اور بٹھانے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے لیکن فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا اور اب کل دوبارہ گنتی کے عمل سے ظاہر ہوگا کہ سیاسی جماعتیں کس حد تک انتخابی نتائج قبول کرتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں