مسلمانوں کے خون کی ارزانی کے اصل ذمہ دار مسلم حکمران

مسلمانوں کے خون کی ارزانی کے اصل ذمہ دار مسلم حکمران

اسرائیل نے عالمی قوتوں کے اشارے پر امت مسلمہ کیخلاف اعلان جنگ کر رکھا استعماری طاقتیں مسلمانوں خصوصاً فلسطینیوں کی نئی نسل سے خوفزدہ نظر آ رہیں

(تجزیہ: سلمان غنی) قبلہ اول پر اسرائیلی فوج کے حملہ اور ریاستی دہشت گردی کے عمل نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور وہ اس گھناؤنے اور مکروہ عمل پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عالم اسلام کے حکمرانوں کی جانب دیکھتے نظر آ رہے ہیں کہ ان کی جانب سے ردعمل کیا صرف مذمتی بیانات اور تشویش کے ذریعے احتجاج پر مبنی ہے یا وہ واقعتاً صیہونیوں کے مذموم عزائم اور ایجنڈا کے خلاف کسی موثر ردعمل کا اہتمام کرتے ہیں۔ کشمیر’فلسطین’ شام’ عراق’ افغانستان’ بھارت’ برما اور نہ جانے کہاں کہاں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے مگر مہذب دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کاش فلسطین میں گزشتہ چند روز کے اندر موت کے منہ میں جانے والے 43فلسطینی امریکی یا یہودی ہوتے پھر جو کہرام مچتا دنیا دیکھتی۔ اب بھی اسرائیلی فوج کی دہشتگردی پر آواز اٹھانے کی بجائے حماس کے ردعمل پر احتجاج کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت اور صداقت یہی ہے کہ خون مسلم کی ارزانی کا اصل ذمہ دار کوئی اور نہیں خود مسلم ممالک کے حکمران ہیں جو اپنی عیش و عشرت اور ذاتی مفادات میں اتنے مگن ہیں کہ امت کے اجتماعی مفاد کو فراموش کر چکے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل نے عالمی قوتوں کے اشارے پر امت مسلمہ کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے ۔ اس حوا لے سے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے اور احتجاجی بیانات پر اکتفا کریں گے اور آخر کب باہم برسر پیکار حکمران اپنا فرص ادا کریں گے ۔ کیا عالمی برادری صیہونی ریاست کے مجرمانہ طرزعمل کا نوٹس لے گی؟۔ وزیراعظم عمران خان نے ا پنے ایک ٹویٹ میں فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے یہ تو کہا ہے کہ میں بطور وزیراعظم فلسطین کے ساتھ کھڑا ہوں لیکن اس ردعمل کے اظہار کے بعد یہ سوچنا پڑے گا کہ کیا صرف یکجہتی کا اظہار ضروری ہے یا اس کیلئے کچھ اور بھی کرنا ہے ۔ کیا دنیا میں مسلمانوں کے انسانی حقوق نہیں اور اگر عالمی برادری اپنی مجرمانہ خاموشی نہیں توڑتی تو پھر اکیسویں صدی کے 56 اسلامی ممالک، ان کی افواج اور حکمرانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اعلان کریں کہ ہم القدس ، فلسطینی عوام اور بچوں کو اسرائیلی دہشتگردوں سے بچائیں گے اور اس کیلئے ممکنہ آپشنز بروئے کار لائیں گے اس لئے کہ فلسطین کی زمین ہمارے لئے بہت متبرک اور مقدس ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم یہودیوں کی طرح یکسو ہیں نہ متحد ۔ ہمیں اپنے دوست دشمن کا ادراک نہیں اور اگر عالم اسلام کے حکمران سر جوڑ کر مذہبی جوش و خروش سے کام لیتے ہوئے کسی ایک ایجنڈا پر اکٹھے ہو جائیں تو شاید پھر طاقت اور قوت کے استعمال کی ضرورت نہ پڑے ۔ صرف اور صرف معاشی ہتھیار ہی استعمال کر کے دنیا کو ایک موثر پیغام دیا جا سکتا ہے اور جس روز ایسا ممکن ہوگا دنیا بھر میں مسلمانوں پر زندگیاں اجیرن بنانے کا عمل بھی ختم ہوگا اور فلسطین اور کشمیر کی آزادی کا خواب بھی حقیقت بن سکے گا ۔ اگر فلسطین میں پیداشدہ کرب کی یہ صورتحال امت مسلمہ کو جگانے کا باعث بنتی ہے تو پھر آنے والے حالات میں عالم اسلام کا کردار اور اجاگر ہوگا۔ آج دراصل ضرورت عالم اسلام میں تحریک کی ہے اور جب اندرونی طور پر پیدا تحریک کوئی رخ اختیار کر لے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے خلاف ٹھہر نہیں سکتی۔ وہ طاقتیں جو مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دیتے نہیں تھکتی تھیں آخر کیا وجہ ہے کہ آج انہیں اسرائیلی افواج کے مظالم نظر نہیں آ رہے اور بچوں تک کو ٹارگٹ کرنے سے گریز نہیں کیا جار ہا۔ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ فلسطینی ماؤں نے اپنے بچوں کو آغاز سے ہی طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کا فن سکھایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتیں مسلمانوں خصوصاً فلسطینیوں کی نئی نسل سے خوفزدہ نظر آ رہی ہیں لیکن یہ جذبہ اور ولولہ ضائع جانے والا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں