آئی ایم ایف کا مطالبہ مسترد ، وزیراعظم کا بجلی مہنگی کرنے اور 150 ارب کے براہ راست ٹیکس لگانے سے انکار ، شوکت ترین

آئی ایم ایف کا مطالبہ مسترد ، وزیراعظم کا بجلی مہنگی کرنے اور 150 ارب کے براہ راست ٹیکس لگانے سے انکار ، شوکت ترین

پائیدارشرح نموآئی ایم ایف ‘پاکستان کامشترکہ ہدف،متبادل پلان دینگے ،مہنگائی پرقابوکی کوشش کررہے ،امریکاسے تجارت چاہتے ،وزیرخزانہ کی پریس کانفرنس ، معاشی ترقی،ٹیکس وصولی،ترسیلات زرمیں اضافہ،زرمبادلہ ذخائر4سال کی بلندترین سطح پر،تجارتی خسارہ زیادہ،زراعت، صنعت،خدمات کے اہداف حاصل ، مہنگائی6.5فیصدرکھنے کاہدف پورانہ ہوا،عمومی شرح میں2.1فیصدکمی،امرا،صنعتی ودیگرسیکٹرزکوٹیکسوں میں1314ارب چھوٹ،قرضے 38ہزار ارب،اقتصادی سروے

اسلام آباد(خبرنگارخصوصی،وقائع نگارخصوصی ،مانیٹرنگ ڈیسک،اے پی پی)وفاقی حکومت نے اقتصادی سروے 2020-21 جاری کردیا۔ وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے جمعرات کو وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار، مشیر تجارت عبدالرزاق دائود، ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور معاون خصوصی ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود کے ہمراہ پریس کانفرنس میں قومی اقتصادی سروے جاری کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے بجلی اور گیس کے ریٹ مزید بڑھانے جبکہ تنخواہ دار طبقے پر 150 ارب کے براہ راست نئے ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے تاہم وزیراعظم نے مطالبہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو بتادیا ہے کہ بجلی مہنگی کرینگے نہ نئے ٹیکس لگائیں گے ، آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں لیکن حکومت نے ایک پوزیشن لی ہے اور حکومت اس پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹے گی، آئی ایم ایف اور ہماری منزل ایک ہے وہ بھی پائیدار گروتھ چاہتے ہیں، ہم آئی ایم ایف کو متبادل پلان دیں گے ، غریب اور تنخواہ دار طبقے پر بوجھ نہیں ڈالیں گے ۔ انہوں نے کہا کورونا سے 2 کروڑ افراد بیروزگار ہوئے تھے جن میں سے بیشتر کا روزگار بحال ہوگیا ہے ، امریکا سے پیسے نہیں تجارت چاہتے ہیں۔ حکومت ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کیلئے اپنی پیداوار بڑھانی پڑے گی جس کیلئے حکومت نے ٹیکسٹائل، تعمیراتی اور زرعی شعبوں کو مراعات دی ہیں۔ پریس کانفرنس میں شوکت ترین نے انکشاف کیا آئی ایم ایف نے کہا تھا بجلی مہنگی کرو، وزیراعظم نے انکار کر دیا، آئی ایم ایف نے کہا 150 ارب کے ٹیکس لگائو، وہ بھی منع کردیا اور صاف کہا غریب اور تنخواہ دار طبقے پر بوجھ نہیں ڈال سکتے ۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا پائیدار شرح نمو آئی ایم ایف اور پاکستان کا مشترکہ ہدف ہے ، یہ ہدف کیسے حاصل ہوگا؟ عالمی ادارے سے متبادل ذرائع پر مذاکرات جاری ہیں۔ شوکت ترین کا کہنا تھا پاکستان نے امریکا سے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم پیسے نہیں تجارت چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا چین ساڑھے 8 کروڑ نوکریاں آؤٹ سورس کررہا ہے ، اکنامک زونز بنانے کیلئے چین کو مراعات دینے پر تیار ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا معیشت ریکور ہورہی ہے ہم اب استحکام کی جانب بڑھ رہے ہیں، ترسیلات زر ثابت کرتی ہیں کہ اوورسیز کا عمران خان سے تعلق اور اعتماد ہے ، زرمبادلہ کے ذخائر جو 2018 میں 7 ارب ڈالر تھے اب 16 ارب ڈالرتک ہیں۔ شوکت ترین نے کہا ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد سے زیادہ ہیں۔ تین چار ماہ سے ماہانہ گروتھ 50 فیصد سے زیادہ ہے ، صنعتوں میں 26 فیصد گروتھ آیا ہے ۔ ہم چاہ رہے ہیں مہنگائی روکنے کیلئے پیداوار بڑھائیں، ہم زراعت میں پیداوار کو بڑھائیں گے ، اب ہمیں اپنے انفراسٹرکچر کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا، ہم 4 فیصد شرح نمو پر ہیں، 7 سے 8 فیصد شرح نمو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ شوکت ترین نے کہا غریب آدمی کیلئے اس مرتبہ بجٹ میں توجہ دی گئی ہے ، ہم نے غریب کی زندگی آسان کرنی ہے ۔ان کا کہنا تھا آئی ٹی 50 فیصد گروتھ کررہی ہے ، اس کو 100 فیصد پر لے جائیں گے ، بھارت نے 10 سال میں آئی ٹی کو 100 گنا بڑھایا، کیا ہم آئی ٹی کو 50 فیصد مزید نہیں بڑھاسکتے ؟ روایتی برآمدات کے علاوہ دیگر مصنوعات کی برآمدات بھی بڑھائیں گے ۔ شوکت ترین کا کہنا تھا پاکستان چند سالوں خصوصاً کورونا کے دوران غذائی اجناس کو برآمد کرنے کی بجائے درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی عام اجناس مہنگی ہوئی ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا افراط زر میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے پاکستان گندم، چینی، گھی اور چند دالیں بڑی مقدار میں درآمد کر رہا ہے ۔ وزیر خزانہ کے مطابق گندم، تیل اور خام تیل کی قیمتیں جس حساب سے عالمی منڈی میں بڑھی تھیں اس حساب سے پاکستان کی حکومت نے اضافہ نہیں کیا بلکہ اس کا کچھ بوجھ خود بھی برداشت کیا ہے ۔ شوکت ترین نے کہا وہ حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل پائے گا یا نہیں لیکن انہیں ایف اے ٹی ایف سے مثبت اشارے ملے ہیں۔ ان کے مطابق کووڈ کے آغاز میں ملک بھر میں کام کرنے والے 5 کروڑ 60 لاکھ تھے جن کی تعداد کورونا کی وجہ سے بے روزگاری بڑھنے پر کم ہوکر 3 کروڑ 50 لاکھ ہوگئی یعنی تقریباً 2 کروڑ افراد ملک بھر سے بے روزگار ہو گئے تھے لیکن بعد میں حکومتی اقدامات کے باعث اکتوبر 2020 میں بے روز گاری کم ہوئی اور ملازمت پیشہ افراد کی تعداد بڑھ کر 5 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ گئی۔ انہوں نے کہا حکومت نے کوویڈ 19 کے حوالہ سے دانش مندانہ پالیسیاں اپنائیں اور اس کے اثرات کو کم یا زائل کیا۔ میگا اقتصادی پیکیج کے تحت خصوصی مراعات سے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 9 فیصد اور زراعت میں 2.77 فیصد کی بڑھوتری ہوئی۔ گندم، چاول، مکئی اور کماد کی بمپر پیداوار حاصل ہوئی۔ مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ترسیلات زر کی مد میں 26 ارب ڈالر حاصل ہوئے اور سال کے اختتام پر یہ 29 ارب ڈالر ہو جائیں گے ۔ انہوں نے کہا آئندہ مالی سال کیلئے محصولات کا ہدف 5800 ارب روپے رکھا جا رہا ہے ۔ گردشی قرضہ کے بتدریج خاتمہ کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا سمارٹ لاک ڈائون کے حوالہ سے فیصلہ دانشمندانہ ثابت ہوا۔ حکومت نے مالیاتی اور زرعی بنیادوں پر بھی فیصلے کئے ۔ وزیراعظم نے اپنی کوششوں سے ہاؤسنگ اور تعمیرات کے شعبہ کیلئے خصوصی مراعاتی پیکیج دیا اور اس ضمن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے خصوصی مراعات حاصل کی گئیں۔ شہریوں کو ویکسین کی فراہمی کا عمل شروع کیا گیا۔ این سی او سی کا قیام ایک بڑا اقدام تھا جس کی موثر نگرانی میں کوویڈ کی لہروں پر قابو پانے میں مدد ملی ہے ، معیشت بحال اور بڑھوتری کی جانب گامزن ہے ۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ایک ارب ڈالر آئے ہیں اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا ایمازون نے پاکستان کو سیلرز لسٹ میں شامل کر دیا ہے ۔ عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ سے ہم نہیں بچ سکتے تاہم ہماری کوشش ہے کہ عام آدمی پراس کے اثرات کوکم سے کم کیاجائے ، عالمی منڈی میں چینی کی قیمت میں 58 فیصداضافہ ہوا، حکومت نے صرف 19سے لیکر12 فیصدتک اضافہ کیا اور38 فیصد بوجھ خودبرداشت کیا، پام آئل کی بین الاقوامی قیمت میں 119 فیصداضافہ ہوا، پاکستان میں 22 فیصد اضافہ صارفین کو منتقل ہوا جبکہ باقی بوجھ حکومت نے برداشت کیا۔ اسی طرح خام تیل اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں زیادہ تر بوجھ حکومت نے خود برداشت کیا۔ ان کا کہنا تھا ریٹیل اور ہول سیل کے درمیان منافع کے مارجن کو کم کرنے کیلئے ویئر ہائوسز اور کولڈ سٹوریجز بنائے جارہے ہیں، پہلی مرتبہ گھی، دالوں، گندم، چینی اور دیگر اشیا کے سٹرٹیجک ذخائر قائم کئے جارہے ہیں تاکہ مستقبل میں کسی قسم کی ناجائر منافع خوری نہ ہو۔ وزیرخزانہ نے کہا سٹاک مارکیٹ تیزی سے ترقی کررہی ہے ، ہماری سٹاک مارکیٹ ایشیا کی پہلی اور دنیا کی چوتھی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی سٹاک مارکیٹ بن گئی ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا عالمی بینک نے احساس پروگرام کو دنیا کا سماجی تحفظ کا بہترین اور بڑا پروگرام قرار دیا ہے ، اس پروگرام کے تحت 15 ملین خاندانوں کو نقد معاونت فراہم کی گئی، وزیراعظم نے کامیاب جوان پروگرام کا آغاز کیا جس سے 8 سے لیکر9 ہزار جوان مستفید ہورہے ہیں، 10 بلین ٹری سونامی پروگرام پر بھی کامیابی سے عملدرآمد جاری ہے ۔ موڈیز، فچ اور سٹینڈرڈ اینڈ پورز جیسے بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہترکی ہے ، ہمیں سالانہ روزگار کے 20 لاکھ مواقع فراہم کرنا ہیں، اس مقصد کیلئے حکومت وقتاً فوقتاً اقدامات کرے گی۔ ان کا کہنا تھا ہماری کوشش ہے کہ 40 لاکھ سے لیکر 60 لاکھ گھرانوں کی زندگیوں میں آسانیاں لائیں، اس مقصد کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ وزیرخزانہ نے کہا بجلی کے شعبہ میں بہتری لائی جارہی ہے ، بجلی ایک بڑا بلیک ہول ہے ، ہماری کوشش ہے کہ گردشی قرضہ میں بتدریج کمی آئے ، اس وقت ادائیگیوں کی وجہ سے گردشی قرضہ آدھا رہ گیا ہے ۔اقتصادی سروے کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران حکومت اہم معاشی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔ معاشی ترقی 2.1 فیصد ہدف کے مقابلے 3.94 فیصد رہی، ٹیکس وصولی میں اضافہ ہوا، زراعت، صنعت، خدمات کے شعبے میں پہلی بار اہداف حاصل کئے گئے تاہم مہنگائی کم نہ ہوئی اور تجارتی خسارہ بھی زیادہ رہا۔ ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا جو 11 ماہ میں 26 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں اور مالی سال پورا ہونے تک 29 ارب ڈالر ہوسکتی ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر کیساتھ 4 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے جس کی وجہ سے 10 ماہ سے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا۔ سارا سال بجٹ خسارہ بھی بے قابو رہا، ملک پر مجموعی قرضوں کا بوجھ 38 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا، امرا، بااثر صنعتی و دیگر سیکٹرز کو ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں چھوٹ کا حجم 1314 ارب تک پہنچ گیا۔ معاشی ترقی 2.1 فیصد ہدف کے مقابلے 3.94 فیصد رہی تاہم توقع ظاہر کی گئی ہے کہ 30 جون تک کے حتمی اعداد وشمار سامنے آنے کی صورت میں یہ شرح مزید بہتر ہو جائے گی، زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبے میں اہداف پہلی بار حاصل کئے گئے ۔ سروے میں حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ وہ مہنگائی کو 6.5 فیصد پر رکھنے کا ہدف پورا نہیں کرسکی اور مہنگائی کی اوسط شرح 8.8 فیصد رہی تاہم ملک میں عمومی افراط زر کی شرح میں جاری مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں 2.1 فیصد کمی ریکارڈکی گئی۔ سروے کے مطابق جولائی 2020 سے لیکر مئی 2021 تک کی مدت میں عمومی افراط زر کی شرح 8.8 فیصد رہی، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں عمومی افراط زر کی شرح 10.9 فیصد رہی تھی، شہری علاقوں میں غذائی اشیا کے افراط زرکی شرح 12.6 اور غیرغذائی اشیا کے افراط زر کی شرح 5.4 فیصد ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں بالترتیب 13.6 اور 8.6 فیصد تھی۔ تھوک قیمتوں کا اشاریہ 11.1 فیصد رہا جو گزشتہ سال 8.4 فیصدتھا، مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں قیمتوں کا حساس اشاریہ 13.5 فیصد رہا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 14 فیصد تھا۔ اقتصادی سروے کے مطابق ٹھوس انتظامی اقدامات، رسد میں بہتری اور دیگر حکومتی معاونتی اقدامات سے افراط زر کے دبائو کو کم کرنے میں مدد ملی۔ اقتصادی سروے کے مطابق تجارتی اور بجٹ خسارہ بھی سارا سال بے قابو رہا اور خود حکومت کے مقررہ ہدف سے زیادہ رہا تاہم فصلوں کی پیداوار میں مجموعی طور پر اضافہ ہوا۔ اعداد وشمار کے مطابق سوائے کپاس کے بڑی فصلوں کی پیداوار بڑھی۔ گنے کی پیداوار 22 فیصد اضافے کے ساتھ 8 کروڑ 10 لاکھ ٹن سے زائد رہی۔ گزشتہ سال گنے کی پیداوار 6 کروڑ 63 لاکھ 80 ہزار ٹن تھی۔ گندم کی پیداوار 8.1 فیصد اضافے سے 2 کروڑ 72 لاکھ 93 ہزار ٹن رہی جو گزشتہ برس 2 کروڑ 52 لاکھ 49 ہزار ٹن تھی۔ چاول کی پیداوار 13.6 فیصد اضافے سے 84 لاکھ 19 ہزار ٹن رہی۔ امرا اور بااثر صنعتی و دیگر سیکٹرز کو ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی چھوٹ کا حجم اس سال بڑھ کر 1314 ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں 448 ارب روپے مالیت کی انکم ٹیکس کی چھوٹ، 578.4 ارب روپے کی جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ، 287.7 ارب روپے مالیت کی کسٹمز ڈیوٹی کی چھوٹ شامل ہے ۔ اقتصادی سروے کے مطابق 33 لاکھ سے زائد پاکستانی کورونا مرض کا شکار ہوئے ، ملک پر مجموعی قرضوں کا بوجھ 38ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا جس میں ملکی قرض 25 ہزار 552 ارب روپے سے بڑھ گیا۔ ملکی و غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی کی لاگت 2104 ارب روپے سے بڑھ کر 2946 ارب روپے تک جا پہنچی، ملکی معیشت کی دستاویز کاری کیلئے 25 ہزار، 15 ہزار اور ساڑھے 7 ہزار روپے والے غیر رجسٹرڈ بانڈز ختم کر دیئے گئے ، مئی 2020 سے لیکر دسمبر 2021 کے دوران کورونا پر قابو پانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک نے پاکستان کے 3 ارب 70 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی موخر کرنے کا ریلیف فراہم کیا۔ ملکی ریونیو جی ڈی پی کے 15.1 فیصد اور اخراجات 23.2 فیصد جبکہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 8.1 فیصد تک جا پہنچا ہے ، مجموعی ریونیو 4689 ارب روپے سے بڑھ کر 4992 ارب روپے ہوگیا، نان ٹیکس ریونیو کی وصولی 1324 ارب روپے سے کم ہوکر 1227 ارب روپے ہوگئی، جولائی تا مارچ کے دوران ملکی اخراجات گزشتہ سال کے 6376 ارب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر اس سال 6644 ارب روپے ہوگئے ۔ سال کے دوران شرح سود 13.25فیصد سے کم کرکے 7 فیصد تک لائی گئی، حکومت نے سٹیٹ بینک کا 1929 ارب روپے کا قرضہ اتار دیا تاہم حکومت نے کمرشل بینکوں سے گزشتہ سال کے قرض 1929 ارب روپے کے مقابلے میں اس سال 2439 ارب روپے کے نئے قرضے حاصل کئے ۔ سٹاک مارکیٹ 34,431 پوائنٹس سے بہتر ہوکر 47,896 پوائنٹس تک جا پہنچی، مارکیٹ میں مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 6529 ارب روپے سے بڑھ کر 8267 ارب روپے تک جا پہنچا۔ ملکی برآمدات گزشتہ سال کی 18.4 ارب ڈالر کے مقابلے میں 20.9 ارب ڈالر اور درآمدات 37.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 44.7ارب ڈالر ہوگئیں۔ زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں کے اہداف بھی پہلی بار حاصل کرلئے گئے ۔ زرعی پیداوار میں اضافہ کی شرح 2.8 فیصد رہی۔ مویشی بانی میں ترقی کی شرح 3.1 فیصد، جنگلات کی 1.4 فیصد، ماہی پروی کی 0.7 فیصد رہی۔ بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار (لارج سکیل مینوفیکچرنگ) گزشتہ سال کی شرح منفی 5.1 فیصد سے اس سال بڑھ کر مثبت 8.9 فیصد تک جا پہنچی۔ صنعتی شعبے میں کورونا کے باوجود ترقی کی شرح منفی سے تبدیل ہوکر مثبت 8.7 فیصد ہوگئی، تعمیراتی شعبے کی ترقی کی شرح 8.3 فیصد، کانکنی کے شعبے کی ترقی کی شرح 6.5 فیصد اور بجلی و گیس کی پیداوار میں مجموعی طور پر 23 فیصد اضافہ ہوا۔ خدمات کے شعبے میں ترقی کی شرح 4.4 فیصد رہی۔ شہروں میں شرح خواندگی 74 فیصد اور دیہات میں 52 فیصد ہوگئی۔ پنجاب میں شرح خواندگی 64 فیصد، سندھ 58 فیصد، خیبر پختونخوا 55 فیصد اور بلوچستان میں 53 فیصد ہے ۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق گاڑیوں کی فروخت ایک لاکھ 51 ہزار یونٹ رہی جبکہ گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ میں 98 ہزار 986 گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔ اقتصادی سروے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 70 دیہات اور قصبوں میں گیس فراہم کی گئی۔ سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنی نے 143 کلومیٹر طویل گیس ٹرانسمیشن لائنیں اور 2616 کلومیٹر طویل ڈسٹری بیوشن لائنیں بچھائیں۔ مجموعی طور پر دونوں کمپنیوں نے 3 لاکھ 4 ہزار 573 اضافی گیس کنکشن فراہم کئے ۔ حکومت نے بجلی پر چلنے والی گاڑیاں متعارف کرانے کی پالیسی تشکیل دی ہے ۔ اس کے تحت 2030 تک ملک بھر میں 30 فیصد گاڑیوں کو بجلی پر منتقل کیا جائے گا۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح 1.80 فیصد ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں