ابترمعاشی صورتحال میں بجٹ سیاسی ، عوام کوریلیف دینے کا تاثر

ابترمعاشی صورتحال میں بجٹ سیاسی ، عوام کوریلیف دینے کا تاثر

مہنگائی کا احساس ہوا،تنخواہوں میں اضافہ،آئی ایم ایف کا دبائو مستردکرنا خوش آئند ، حقیقی ریلیف یوٹیلٹی بلزمیں کمی،بجٹ کی نتیجہ خیزی کشیدگی کے خاتمے سے مشروط

(تجزیہ سلمان غنی) گھمبیر معاشی صورتحال میں پیش کئے جانے والے وفاقی بجٹ کو کسی حد تک سیاسی بجٹ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں عوام پر براہ راست ٹیکس عائد کرنے کے بجائے ریلیف دئیے جانے کا تاثر ہے ۔ تنخواہوں اور پنشن کی مد میں دس فیصد اضافہ مہنگائی زدہ عوام خصوصاً سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین کیلئے معاونت یا سہولت قرار دیا جا سکتا ہے ۔ زرعی شعبہ میں فصلوں کی ریکارڈ پیداوار کے ساتھ اس کیلئے 12ارب روپے جبکہ ترقیاتی عمل کیلئے 9سو ارب مختص کئے گئے ہیں۔ مزدوروں کی کم سے کم اجرت 20 ہزار ، نئی مردم شماری اور بلدیاتی انتخابات کیلئے 5 ،پانچ ارب مختص ، مقامی طور پر تیار کی جانے والی 800 سی سی گاڑیوں پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس ختم کرتے ہوئے چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 13فیصد سے 12.5 فیصد کیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح حکومت نے اپنی آمدن اور اخراجات میں بھی توازن رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ بنیادی سوال یہ ہوگا کہ ان حالات میں پیش کیا جانے والا بجٹ اور تجویز کردہ اقدامات پر عملدرآمد کس حد تک ممکن ہو پائے گا۔ اعدادوشمار، اکنامک سروے ، اداروں کی رپورٹس ہی معاشی ترقی کی ضامن نہیں ہوتیں ۔ اصل حقیقت نتائج اور اثرات ہوتے ہیں چنانچہ بجٹ کا اصل امتحان اگلے سال کے دوران ہوگا۔ رواں سال حکومت گزشتہ سال کے بجٹ پر کسی حد تک عملدرآمد کر سکی اور کیا ٹارگٹس حاصل کئے ۔ یہ حکومت اور انکے معاشی ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں لیکن عام تاثر یہی رہا کہ معاشی اعتبار سے حکومتی کارکردگی کوئی خاطر خواہ نہیں رہی۔ مہنگائی،بیروزگاری نے حکومت کو پریشان کئے رکھا، مگر اب جبکہ حکومت آئندہ مالی سال میں بڑے معاشی دعوئوں کے ساتھ اعتماد کا اظہار کر رہی ہے توا سے بھرپور تیاری کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا ۔ رواں سال حکومت کو توانائی اور مہنگائی کے دو بڑے چیلنجز درپیش ہونگے ، ان کی قیمتوں کے آگے بند باندھنے کیلئے موثر اقدامات بروئے کار لانا ہوں گے جبکہ بیروزگاری سے نمٹنے کیلئے سرمایہ کاری اور صنعتی عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کو ذاتی کاروباراور روزگار کے لئے ممکنہ مواقع ، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ،درآمدات کے شعبہ میں خاص طور پر اشیائے خوراک کی درآمدات کا سلسلہ بند کرنا ہوگا ۔ زرعی معیشت جتنی مضبوط ہوگی اتنا زیادہ ملک میں خوراک کا بحران کم ہوگا ۔ حکومت کی جانب سے عام آدمی پر ٹیکس کا بوجھ نہ لادنا اور ان کیلئے ریلیف کی فراہمی کا عمل ہی اسکی ساکھ اور کارکردگی کے حوالہ سے اہم ہے ،تنخواہ دار طبقے پر نیا ٹیکس نہ لگا نا اچھا اقدام کیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے خوردنی تیل اور گھی کی قیمتوں پر فیڈرل ٹیکس کی چھوٹ کو بھی عوام دوست اقدام قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کا فائدہ عوام کو مل سکے گااور قیمتوں میں کمی ہو پائے گی؟ جائزہ لیا جانا چاہئے کہ آخر ترقیاتی بجٹ کیونکر خرچ نہیں ہو پایا۔ اس میں کیا رکاوٹ ہے ، کیا وجہ ہے کہ ترقیاتی منصوبے نہ تو بروقت شروع اور نہ ہی بروقت ختم ہوتے ہیں۔ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ بجلی،گیس اور پٹرولیم اخراجات ہیں، جو دراصل عوام کی جیبوں پر بوجھ ہوتے ہیں۔ جب تک عوام کو یوٹیلٹی بلز میں براہ راست ریلیف نہیں مل پاتا اس وقت تک حقیقی ریلیف کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں