سیاسی بجٹ دیکر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی

سیاسی بجٹ دیکر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی

حکومت 75 فیصد عملدرآمد بھی کرگئی تو سر اٹھا کر عوام کا سامنا کرسکے گی حکومت اور اپوزیشن کو الزام تراشی کی بجائے سنجیدگی اختیار کرنی چاہیے

(تجزیہ:سلمان غنی) حکومت نے مایوسی کی کیفیت میں ایک سیاسی بجٹ دے کر کسی حد تک عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش تو کی ہے مگر اس بجٹ میں کئے جانے والے وعدے اور دعوے پورے کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں کی ہے اور معیشت ٹیک آف کیسے کرے گی یہ چیلنج بھی حکومت نے لیا ہے لہذا یہ خوشی کے اظہار سے زیادہ ذمہ داری کا امتحان ہے اور اگر حکومت واقعتا اس بجٹ پر 75 فیصد بھی عملدرآمد کرنے میں کامیاب ہو گئی تو سر اٹھا کر انتخابی عمل میں عوام کا سامنا کر سکے گی اور پی ٹی آئی یہ کہنے میں حق بجانب ہوگی کہ اس نے پاکستان کے عوام کیلئے ریلیف اور خصوصاً معاشی بحالی اور ترقی کا جو دعویٰ کیا تھا وہ پورا کر دکھایا اور عوام ایک مرتبہ پھر ان پر اعتماد کا اظہار کریں لیکن اگر ان نعروں دعوؤں اور اصلاحات پر عملاً پیش رفت نہ ہو سکی تو پھر حکومت کی رہی سہی مقبولیت اور ساکھ کا دیوالیہ ہو جائے گا۔ لہذا اچھی توقعات کے ساتھ حکومت کیلئے دعاگو ضرور ہونا چاہیے کیونکہ ملکی معیشت کا مسئلہ پی ٹی آئی کا مسئلہ نہیں پاکستان کا مسئلہ ہے اور اگر معاشی حالات درست نہیں ہوتے تو پاکستان مضبوط نہیں ہو سکے گا۔ حکومت نے اچھا کیا کہ بجٹ کے اعلان کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی موبائل فون کال، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس پر ٹیکس واپس لیا ہے ورنہ اس سے اس سارے بجٹ کا تاثر زائل ہو جانا تھا لیکن بڑا سوال یہ ضرور کھڑا ہوگا کہ اس مد میں حکومت نے جو سو بلین روپے کا ٹارگٹ رکھا تھا اب یہ کس مد سے حاصل کئے جائیں گے ۔ کیا یہ خاتمہ مستقل ہوگا یا یہ تلوار آنے والے وقت میں پھر مہنگائی کر کے عوام پر گر سکتی ہے ۔ دوسری جانب پاکستان میں ایسے سینکڑوں لوگ آج بھی موجود ہیں جن کی اکثریت قومی سیاست میں موجود ہے جنہوں نے نہ صرف اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے بلکہ ان میں سے اکثر بینکوں کو کنگال کرنے کا باعث بنے اور یہ وزیر خزانہ شوکت ترین اچھی طرح جانتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے عام شہری کیلئے 5 لاکھ قرض کی فراہمی کا عمل یقینا ًکاروباری سرگرمیوں کے فروغ اور بے روزگاری کے خاتمہ کا باعث بن سکتا ہے لیکن یہ سہولت سیاسی بنیادوں کی بجائے عام لوگوں اور خصوصاً نوجوانوں کو ملنی چاہئے کیونکہ آج اگر حکومت نے نوجوانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں نہ کیں تو پھر اپنی نئی نسل کے مستقبل اور خصوصاً قومی ترقی میں ان کے کردار کے بارے میں اچھی توقعات قائم نہیں کی جا سکیں گی۔بار بار حکومت کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے اب معیشت ٹیک آف کرنے والی ہے ۔ اس حوالے سے ضروری اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن حکومت کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ معیشت کے ٹیک آف کو انتہائی ذمہ داری اور احتیاط سے بروئے کار لانا چاہیے ورنہ ٹیک آف کرتے وقت حادثات بھی ہو جاتے ہیں اور آج کا پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے عوام نے تیسری جماعت کا تجربہ معیشت کی بہتری اور اپنی زندگیوں میں اطمینان اور ریلیف کیلئے کیا تھا اور اگر تحریک انصاف کی حکومت ان کے اعتمادپر پورا نہیں اترتی تو پھر وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے ہونے والی مایوسی دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہوگی۔ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ سیاستدانوں اور سیاسی قوتوں سے اچھی توقعات قائم کی ہیں اور جمہوریت کو ہی اپنے مسائل کا حل سمجھا ہے مگر قومی سیاسی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اہل سیاست اور اشرافیہ کے دن تو پھرتے چلے گئے مگر مسائل زدہ عوام کی زندگی میں تبدیلی نہیں آئی۔ اس کی حالت زار نہیں بدلی۔ اس کے بچوں کو ترقی کے عمل میں حصہ نہیں ملا۔ وہ روزگار کیلئے دربدر ہوتا گیا۔ جہاں تک وفاقی وزیر فواد چودھری کی جانب سے کئے جانے والے اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ اگر مہنگائی بڑھی ہے تو لوگوں کی قوت خرید بھی بڑھی ہے ۔ یہ کیسے مان لیا جائے اس لئے کہ صنعتی عمل چل نہیں رہا۔ بے روزگاری کا طوفان رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ملکی معیشت کا حجم بڑھتا دکھائی نہیں دیا تو پھر کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ لوگوں کی قوت خرید بڑھی ہے ۔ ملکی سیاسی بدقسمتی یہ ہے کہ ملکی معیشت قرضوں کی معیشت بن چکی ہے اور سارے معاملات سود کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ اگر قرضوں کی ادائیگی کا عمل بھی قرضوں کے ذریعہ ہی ممکن بن رہا ہے تو پھر کیسی ترقی اور کیسی خودانحصاری۔ لہذا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ملکی معیشت کے حوالے سے الزام تراشی سے گریز کرتے ہوئے سنجیدگی اختیار کرنی چاہیے اور کسی نہ کسی طرح آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنا چاہئے ورنہ آنے والے وقت میں وہ مہنگائی زدہ عوام کو اور نچوڑ کر ان کی زندگی اجیرن بنا دے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں