افغانستان:سیاسی پیش رفت میں امریکی کردار رکاوٹ
طالبان کی نفسیاتی جنگ جاری، اشرف غنی کے توڑ کیلئے سفارتی محاذ پر سرگرم ، امریکا کو چین روس کی جانب جھکائو ہضم نہیں، معید یوسف کا دورہ اہم ہو گا
(تجزیہ:سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں پاکستان میں سول وار کے خدشات کی بات دراصل پاکستان کے اس اصولی مؤقف کا اظہار ہے کہ عالمی اور علاقائی فورسز اپنے اپنے کردار کے ذریعے یہاں سیاسی تصفیہ یقینی بنائیں، مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی سیاسی حل کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے ، امریکا اور نیٹو افواج کو افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں شکست کے باعث ابتر صورتحال میں واپس جانا پڑا، وہ کیسے چاہے گا کہ یہاں طالبان کی حکومت قائم ہو، لہٰذا وہ کسی ایسے بندوبست کی جانب نہیں بڑھے گا جس کے نتیجہ میں طالبان کی بالادستی قائم نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ وہ صدر اشرف غنی، ان کی انتظامیہ اور ان کی فورسز کی حمایت کررہا ہے ،لیکن کیا اشرف غنی انتظامیہ اور افغان فورسز طالبان کی پیش قدمی کے آگے بند باندھ سکیں گے ؟طالبان کو خاص جلدی نہیں وہ افغانستان کے بڑے علاقے میں موجودگی یقینی بنانے کے بعد افغان انتظامیہ اور فورسز کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کئے ہوئے ہیں اور کابل سمیت بڑے شہروں پر قابض ہونے کے بجائے گھیراؤ کے عمل میں مصروف ہیں تا کہ شہروں کو جانے والے راستوں پر اپنا تسلط قائم کر کے شہروں کیلئے اشیائے ضروریہ کی سپلائی کو معطل کیا جائے یا متاثر کیا جائے جس سے یقیناً افغان انتظامیہ پر دباؤ بڑھے گا اور ان کے پاس طالبان سے الجھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا،پھر طالبان شہروں کی طرف پیش قدمی کریں گے ، لیکن افغانستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ طالبان کی بڑی پیش قدمی میں اصل رکاوٹ صدر اشرف غنی اور انتظامیہ کو امریکا سمیت بعض قوتوں کی طرف سے ملنے والی اخلاقی سپورٹ ہے اور طالبان اس کے توڑ کیلئے سفارتی محاذ پر سرگرم ہیں، جہاں تک افغانستان کے حوالے سے عملاً کسی سیاسی پیش رفت کا سوال ہے تو فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آ رہی اور اس کی بڑی وجہ خود امریکی کردار ہے جو کیسے چاہے گا کہ ان کی افواج کے انخلا کے بعد یہاں استحکام قائم ہو اور علاقائی فورسز کی کاوش کارگر بن سکے ویسے تو اس حوالے سے امریکی پالیسی کیا ہے ، وہ کیا چاہتا ہے ، اس کا پتہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کے دورہ امریکا سے پتا چلے گا کیونکہ خود امریکا کے بعض اہم تھنک ٹینکس کا حصہ رہنے کی وجہ سے وہ امریکی مائنڈ سیٹ کو بہتر جانتے ہیں، ان کی امریکہ میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کے علاوہ دیگر حکام سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں لہٰذا ان کے اس دورہ سے پاکستان امریکی عزائم کو سمجھ سکے گا کہ وہ افغانستان میں کیا چاہتے ہیں اور وہ کس حد تک افغانستان میں امن میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کے اس دورہ سے یہ بھی پتا چلے گا کہ خود امریکا افغان تنازع کے حوالے سے پاکستان سے کیا توقعات رکھتا ہے اور پاکستان کس حد تک ان پر پورا اتر سکے گا ویسے تو اب تک کی صورتحال میں پاکستان کی پالیسی اور طرز عمل پر امریکہ خوش نہیں ہوگا کیونکہ وہ افغان تنازع میں پاکستان کے علاقائی قوتوں خصوصاً چین، روس کی جانب جھکاؤ کو ہضم نہیں کر پایا، لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہے گا کہ اس کی کسی پالیسی کے تحت پاکستان منتشر ہو کر اپنا سارا وزن چین کے پلڑے میں ڈال دے ۔