کشمیر میں ہونیوالے واقعات دل خراش ، انسانیت کی تذلیل
بھارت نے کشمیر کو نو آبادیاتی کالونی بنانے کیلئے اپنی نام نہاد جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ، ریاست قید خانے میں تبدیل ، حریت قیادت نظر بند،لاک ڈاؤن کا سفاک عمل جاری
(تجزیہ: سلمان غنی) بھارت کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کیلئے 5 اگست کی بھارتی آئینی ترامیم کے اقدام کے خلاف پاکستان کی جانب سے یوم استحصال کشمیر منائے جانے کا عمل دنیا پر یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ بھارتی فاشسٹ حکمرانوں نے جموں و کشمیر کو نو آبادیاتی کالونی بنانے کیلئے اپنی نام نہاد جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے پوری ریاست کو ایک قید خانے میں بدل دیا گیا ہے ساری حریت قیادت نظر بند ہے ۔ لاک ڈاؤن کا سفاک عمل اب تک جاری ہے ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بدترین سلسلہ عروج پر ہے اور نہتے کشمیری نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے لیکن بھارتی حکمرانوں اور اس کی افواج کے سفاک عمل کے باوجود کشمیری ان کے سامنے سرنڈر کرنے کو تیار نہیں اور آج بھی مسئلہ کشمیر کی گونج دنیا میں سنائی دے رہی ہے اور اس مسئلہ کے پائیدار اور منصفانہ حل تک نہ کشمیری چین سے بیٹھیں گے نہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے اپنے تاریخی اور اصولی مؤقف پر پسپائی اختیار کرے گا۔ لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا پانچ اگست کے اقدامات کے بعد بھارت سرکار کشمیر پر اپنا تسلط قائم کر پائی ہے ، کیا کشمیری عوام بھارتی ظلم و ستم اور بربریت کے سامنے پسپائی اختیار کر چکے ہیں اور بھارت کے ان اقدامات کے بعد کیا مسئلہ کشمیر کی کوئی اہمیت و حیثیت قائم ہے اور مسئلہ کے بنیادی فریق کی حیثیت سے پاکستان کا اپنا کردار کیا ہے ؟ اور وہ کونسی وجوہات ہیں جس بنا پر عالمی برادری مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے ؟ جہاں تک 5 اگست کے بھارتی اقدامات کے حوالے سے کشمیری عوام کے رد عمل کا سوال ہے تو حقائق یہی ہیں کہ کشمیریوں نے اس غیر قانونی اقدام کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور ہر سطح پر ان اقدامات کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور بھارت کے اس ناجائز قبضہ کے خلاف ثابت قدم ہیں کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ کشمیر کی وادی سے آزادی کے نعروں کی گونج نہ سنائی دیتی ہو۔ آئے روز کی ٹارگٹ کلنگ، خواتین سے ظلم و زیادتی کے عمل، کشمیریوں کے گھر جلانے کے باوجود کشمیریوں کی نفرت بھارت اور بھارتی افواج کے خلاف ان کے چہروں سے عیاں ہے ، لیکن بھارتی حکومت نے اس ظلم، درندگی اور وحشت ناکی سے باہر کی دنیا کو بے خبر رکھنے کا پورا انتظام کر رکھا ہے ، ریاست کے مواصلاتی نظام کے ذریعے ظلم و جبر کے سفاک عمل کو جاری رکھنے کا پورا بندوبست کر رکھا ہے لیکن بھارتی حکمرانوں کی تمام پابندیوں کے باوجود اس وقت مسئلہ کشمیر کی گونج دنیا میں سنائی دے رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ خود کشمیری عوام کی جدوجہد اور ان کی جانب سے رقم کی جانے والی قربانیوں اور شہادتوں کی تاریخ جو چھپائے نہیں چھپ رہی اور جس کے باعث آج دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کا مکروہ چہرہ دنیا پر عیاں ہو رہا ہے ، کشمیر میں رونما ہونے والے واقعات دل خراش ہی نہیں انسانیت کی تذلیل بھی ہیں، مقبوضہ ریاست میں بھارتی اقدامات انسانی اقدار، ورلڈ آرڈر اور 5 اگست کے اقدامات کے بعد سے جموں و کشمیر سے حصے بخر ے کرنے اور اسے دہلی کے زیر انتظام لانے کے اقدام سے بھارتی فاشسٹ حکمرانوں نے جموں و کشمیر کو نو آبادیاتی کالونی بنانے کے لیے اپنی نام نہاد جمہوریت کا جنازہ بھی نکال دیا ہے ۔خود بھارت سرکار نے کشمیریوں کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا، کوئی گھر ایسا نہیں رہا کہ ان کے گھرانے کا کوئی فرد یا عزیز کشمیر کی آزادی کی اس جدوجہد میں اس نے خون نہ دیا ہو ۔کشمیری بھارت کو اپنا مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں جسے ان کی زمین ہڑپ کرنے میں دلچسپی ہے جو اسرائیلی غاصبوں کے نقش قدم پر چل کر اس کی مدد سے راستہ بنانا چاہتا ہے ، بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کے اقدامات کے بعد سے بی جے پی کی فاشسٹ حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں ان کے نتیجہ میں آزادی کی تحریک سست ہونے کی بجائے تحریک مزاحمت اور بھی وسیع اور مؤثر ہو چکی ہے ، کشمیری بھارت سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے اور اپنے بنیادی مسئلہ اور مطالبہ یعنی حق خود ارادیت پر پسپائی پر تیار نہیں، جہاں تک اس ساری صورتحال میں پاکستان کے مؤقف اور کردار کا تعلق ہے تو پاکستان کیلئے کشمیر آج بھی زندگی موت کا مسئلہ ہے اور پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے فیصلہ کا اختیار کشمیریوں کو دیئے گئے اپنے تاریخی مؤقف پر قائم ہے اور کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ایک ڈھونگ اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں جس کا کوئی اخلاقی قانون یا سیاسی جواز نہیں۔ پاکستان کے اس مؤقف کا اظہار پاکستان کی موجودہ قیادت نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کیا اور پاکستان نے ہمیشہ بھارت سے مذاکراتی عمل کو کشمیر سے مشروط رکھا اور اب بھی موجودہ حکومت نے بھارت سے مذاکراتی عمل کیلئے 5 اگست کے اقدامات کی واپسی کی شرط عائد کر رکھی ہے جہاں تک کشمیر کی صورتحال بارے عالمی قوتوں اور اداروں کے کردار کا سوال ہے تو اب تک اس حوالے سے ان کے کردار کو مجرمانہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے وہ کشمیر کی صورتحال پر اظہار افسوس اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر تشویش تو ظاہر کرتے نظر آتے ہیں مگر عملاً کوئی بھی بھارت کا ہاتھ پکڑنے کو تیار نہیں۔