سپریم کورٹ کوئی کسینو نہیں کہ نیب اہلکار حملہ آور ہوں : قائم مقام چیف جسٹس

سپریم کورٹ کوئی کسینو نہیں کہ نیب اہلکار حملہ آور ہوں : قائم مقام چیف جسٹس

ایسی کیا ایمرجنسی تھی ملزم کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا،قانون کی حکمرانی ریکوری سے زیادہ اہم :جسٹس عمرعطابندیال ، آئین نے پریس کے تحفظ کی ضمانت دی،متصادم قانون کالعدم کردینگے ،صحافی بھی سیاست نہیں کرسکتا :عدالت عظمیٰ

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر،اپنے نامہ نگارسے ) قائم مقام چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کوئی کسینو نہیں کہ نیب اہلکار حملہ آور ہوں،سپریم کورٹ نے ضمانت کے مقدمے میں ملزم کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرنے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے نیب سے وضاحت طلب کرتے ہوئے گرفتاری میں ملوث نیب ملازمین کو ایک ایک لاکھ روپیہ کے سکیورٹی بانڈز جمع کرانے کی ہدایت کردی اور واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی طلب کرلی ، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے ملزم کی عدالتی احاطہ سے گرفتاری پر غیر مشروط معافی مانگ لی،مضاربہ سکینڈل کے ملزم سیف الرحمان کو پیشی پر آتے ہوئے سپریم کورٹ کی پارکنگ سے نیب حکام نے تحویل میں لے لیاجس پر ملزم کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے توہین عدالت کی درخواست دائر کردی، عدالت نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو پیش کرنے کا حکم دیا ، جسٹس منیب اختر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ نیب حکام جو روسٹرم پر کھڑے ہیں پیچھے جاکر بیٹھ جائیں۔فاضل جج نے کہا گرفتاری میں ملوث نیب ملازمین کے خلاف کیوں نہ ایف آئی آر درج کرائیں، یہاں سے ہتھکڑی لگاکر بھیجیں گے ۔قائم مقام چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسی کیا ایمرجنسی تھی کہ نیب نے ملزم کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا۔ عدالتی احاطہ کی توہین نہیں ہونے دینگے ، نیب نے ریکوری کرنی ہے تو قانون کے مطابق کرے ، نیب شہریوں کو خوفزدہ کرکے ریکوری نہیں کرسکتا،قانون کی حکمرانی ریکوری سے زیادہ اہم ہے ، اگر ضروری ہوا تو سخت کارروائی کریں گے ،کیا نیب کے یہ افسران کسی کلب کے بائونسر ہیں، نیب کے پاس اتھارٹی لوگوں کو ہراساں کرنے کیلئے نہیں۔عدالت نے سیف الرحمان کی عبوری ضمانت دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرلی اور ڈی جی نیب راولپنڈی اور ڈی جی ایچ آر راولپنڈی کونوٹس جاری کرکے طلب کرلیا، مزید سماعت یکم ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔دریں اثنا چیئرمین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال نے واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق فوری تادیبی کارروائی کا حکم دے دیا اورنیب راولپنڈی سے 24گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرلی ۔ادھر سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کر تے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا جبکہ عدالت نے اٹارنی جنرل ،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل صاحبان کے علاوہ چیئر مین پیمر اورانسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس کو بھی نوٹس جاری کردیاجبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے صحافیوں پر حملوں سے متعلق زیر سماعت مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں ۔جسٹس اعجا زالاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ،جسٹس منیب اختر نے ریما رکس دئیے کہ آئین کا آرٹیکل 19 پریس کی آزادی کا تحفظ دیتا ہے ،ہمارے آئین نے پریس کے تحفظ کی ایک ایسی ضمانت دی ہے جو بھارتی اور امریکی آئین میں بھی نہیں ،کوئی قانون آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم ہوا تو کالعدم کردیں گے ،جسٹس قاضی امین نے ریما رکس دئیے کہ جس طرح بطور جج ہم سیاست نہیں کر سکتے ،اسی طرح صحافی بھی سیاست نہیں کرسکتا ،صحافی کا کام صحافت کرنا ہے صحافت اور آزادی اظہار رائے تہذیب کے دائرے میں ہونی چاہیے ،صحافیوں پر حملوں سے آگاہ ہیں ،صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا ،عدالت نے کہا صحافیوں اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ سے متعلق ایشوز کا تعین کرکے جامع کارروائی کی جائے گی،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سپریم کورٹ نے اب اس معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے تمام درخواست گزار اس معاملے سے دستبردار بھی ہوجائیں تو بھی ریاست کے ذمہ داروں اور متعلقہ لوگوں کو بلا کر کارروائی جاری رکھیں گے ،تنخواہوں اور چھانٹیوں کے معاملے پر بھی عدالت صحافیوں کیساتھ کھڑی رہی، صحافیوں کو گرفتاری کے حوالے سے تحفظ حاصل ہے ، جہاں بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے عدالت وہاں صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے ،تین صحافیوں نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں،عدالت نے مزید سماعت 15ستمبر تک ملتوی کردی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں