پاکستان ، چین کی افغانستان کیلئے امداد : نئی حکومت کا خیر مقدم ، قریبی روابطہ رکھیں گے : چینی ترجمان ، طالبان کو اپنی جائز حیثیت تسلیم کرانے کیلئے محنت درکار : امریکا

پاکستان ، چین کی افغانستان کیلئے امداد : نئی حکومت کا خیر مقدم ، قریبی روابطہ رکھیں گے : چینی ترجمان ، طالبان کو اپنی جائز حیثیت تسلیم کرانے کیلئے محنت درکار : امریکا

چین 3کروڑ ڈالر کاسامان ، ویکسین، پاکستان 3امدادی جہاز بھجوائیگا، علیحدگی اختیار نہیں کرسکتے ،امریکا کے 10ارب ڈالر منجمد کرنے سے بحران جنم لے سکتا:شاہ محمود ، انتہاپسندوں سے تعلقات ختم ، کارروائی کریں:چینی وزیر خارجہ ، تعلقات بڑھائینگے :ترکی،تعاون کیلئے تیار:ازبکستان،جرمنی ،جاپان کا ملاجلا ردعمل،ریڈ کراس کی فنڈز بحالی کی اپیل

اسلام آباد،کابل(وقائع نگار،نیوز ایجنسیاں ،مانیٹرنگ ڈیسک)افغان طالبان کی طرف سے عبوری حکومت کے اعلان کے بعد چین نے افغانستان کیلئے 3کروڑ ڈالر امداد کا اعلان کردیا ، جبکہ پاکستان نے بھی انسانی بنیادوں پر خوراک اور ادویات پر مشتمل 3امدادی جہاز بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے ، چینی ترجمان نے طالبان کی نئی حکومت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا طالبان سے قریبی روابط رکھیں گے ، جبکہ امریکا نے کہا طالبان کو اپنی جائز حیثیت تسلیم کرانے کیلئے محنت درکار ہے ، یورپی یونین اور ایران نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا طالبان جامع حکومت بنانے میں ناکام رہے ، ترجمان دفتر خارجہ نے کہا پاکستان کی حکومت موجودہ مشکل ماحول میں افغان بھائیوں کی ہرممکن حد تک مدد جاری رکھے گی،تین سی 130 جہاز امدادی سامان لے کر افغانستان روانہ ہورہے ہیں، افغانستان میں بدلتی صورتحال کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں، نئے سیاسی انتظام کے تحت امن و استحکام اور سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا۔امریکا اور جرمنی کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق ورچوئل وزارتی رابطہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود نے کہا قریبی ہمسائے کی حیثیت سے پاکستان افغانستان سے علیحدگی اختیار نہیں کرسکتا، امریکا کے 10 ارب ڈالر منجمد کرنے سے افغانستان میں معاشی بحران جنم لے سکتا ہے ،افغان عوام کے مسائل کے حل کیلئے عالمی برادری کی پائیدار امداد کی ضرورت ہے ،قبل ازیں پاکستان کی میزبانی میں ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا ورچوئل اجلاس ہوا، چین ، ترکمانستان ، تاجکستان ،ازبکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی،وزیر خارجہ شاہ محمود نے کہا پڑوسی ملک میں تبدیلی ایک حقیقت ہے ، اس کے افغانستان، ہمارے خطے اور عمومی طور پر دنیا کے لئے گہرے مضمرات ہیں، اہمیت اس امر کی ہے کہ دہائیوں سے جاری خون خرابہ دہرایا نہیں گیا،طویل تنازع اور خانہ جنگی کا امکان بظاہر ٹل گیا ہے ،بہت خدشہ تھا کہ مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ہجرت ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا، اس کے باوجود صورتحال پیچیدہ اور غیرمستحکم ہے ، نئی صورتحال متقاضی ہے کہ پرانی عینک ترک کرکے نئے تناظر کو دیکھا جائے ، افغانستان کے مسائل افغان عوام کو ہی حل کرنے چاہئیں، ہماری کوششوں کا بنیادی محور ومرکز افغان عوام کی فلاح وبہبود اور بہتری ہونا چاہیے ،ایک متحد، خود مختار اور جغرافیائی سالمیت کے حامل افغانستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرنا ہوگا،افغانستان کے استحکام میں ہمسایہ ممالک کا براہ راست مفاد ہے ،افغانستان کی اقتصادی صورتحال بہتر کرنے کیلئے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا ہوگا،شاہ محمود کا پولینڈ کے وزیر خارجہ زبگنیو راؤ سے بھی ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں افغان صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر رہنما ڈاکٹر آصف محمود نے بھی شاہ محمود سے ملاقات کی۔دریں اثنا چینی وزیرخارجہ وینگ یائی نے افغانستان کیلئے 3کروڑ ڈالر سے زائد کی امداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا افغانستان میں ترقی کیلئے چین امداد دے گا،افغانستان میں سفارتکاروں سے ویڈیو کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی اور ملک کے مقابلے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کی معاشی اور انسانی بنیادوں پر امداد کریں، ہم افغانستان کی خودمختاری اور آزادی کا احترام کرتے ہوئے ملکی ترقی کیلئے ان کی مدد کریں گے ،افغانستان کو دالوں، سردیوں کی اجناس، ویکسین اور ادویہ کی مد میں 3کروڑ ڈالر سے زائد(20 کروڑ یوآن)کی امداد دیں گے ،افغان عوام کو 30 لاکھ کورونا ویکسین کی خوراکیں عطیہ کرنے کا بھی فیصلہ کرچکے ہیں،انہوں نے افغانستان کی نئی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام انتہا پسند اور دہشت گرد قوتوں سے تعلقات ختم کر کے ان کے خلاف کارروائی کیلئے اقدامات کرے ،وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے کی سکیورٹی اور استحکام کیلئے تمام فریقین کو خفیہ معلومات کے تبادلے اور سرحدی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ کیا جا سکے ۔ قبل ازیں پریس بریفنگ کے دوران چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا چین طالبان کی نئی حکومت کے رہنماؤں سے روابط برقرار رکھنے کو تیار ہے ،چین عبوری حکومت کے قیام کے طالبان کے اعلان کو بہت اہمیت دیتا ہے ، اس کے ساتھ ہی تین ہفتوں سے ملک میں جاری انارکی کا خاتمہ ہو گیا ہے اور یہ ملک میں امن و امان کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے انتہائی اہم قدم ہے ،ہمیں اُمید ہے کہ افغان حکام ہر نسل اور گروہ کے لوگوں کو غور سے سنیں گے تاکہ اپنے لوگوں کی خواہشات اور بین الاقوامی برداری کی توقعات پر پورا اتر سکیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے برلن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا نئی عبوری حکومت جامع نہیں اور طالبان کی کابینہ میں شامل کچھ افراد پر امریکا کو خدشات ہیں،طالبان کو نئی حکومت کے بعض ناموں کیلئے دنیا سے قانونی حیثیت حاصل کرنی پڑے گی،جبکہ طالبان کو ان کے عمل سے پرکھاجائے گا، اتحادیوں سے طالبان کو ان کے وعدوں کی پاسداری پر قائم رکھنے پر بات کی ہے ،اس وقت طالبان چارٹرڈ پروازوں کی روانگی کی اجازت نہیں دے رہے اور کچھ مسافروں کی نامکمل دستاویزات کے باعث پروازیں روکے ہوئے ہیں لیکن ہم افغانستان کیلئے چارٹرڈ پروازیں شروع کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ ترکی کے وزیرِ خارجہ میولوت چاواشولو نے ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ اُن کے ملک کو طالبان حکومت تسلیم کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے اور دنیا کو بھی اس حوالے سے جلدی نہیں ہونی چاہیے ، ایک متوازن حکمت عملی کی ضرورت ہے اور ترکی مختلف عوامل کی بنا پر یہ فیصلہ لے گا، طالبان کے ساتھ بتدریج تعلقات بڑھائیں گے ،طالبان کیلئے خانہ جنگی سے بہتر یہ ہوگا کہ وہ تمام دھڑوں کی نمائندہ حکومت بنائیں کیونکہ اسے پوری دنیا قبول کرے گی،افغان خواتین کو بھی حکومت میں ذمہ داری دی جانی چاہیے ۔ یورپی یونین نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی نئی عبوری نگران حکومت مختلف گروہوں کو نمائندگی دینے کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی، ترجمان نے کہا کہ اعلان کردہ ناموں کے ابتدائی تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ یہ افغانستان کے نسلی اور مذہبی تنوع کے لحاظ سے ایک جامع اور نمائندہ حکومت کی تشکیل نظر نہیں آتی جس کا وعدہ کیا گیاتھا،یورپی یونین کے 27 ممالک نے طالبان کے ساتھ روابط بڑھانے کیلئے پانچ شرائط رکھی ہیں جس میں سے ایک جامع اور نمائندہ عبوری حکومت کی تشکیل بھی ہے ،یورپی یونین کے ترجمان نے کہا کہ مستقبل کی عبوری حکومت کی تشکیل میں جامع انداز میں شمولیت اور نمائندگی کی توقع ہے ،ایران میں سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شامخانی نے ٹویٹ میں کہا طالبان کی جانب سے جامع حکومت کی تشکیل میں ناکامی اور بیرونی مداخلت تشویش کا باعث ہیں،افغان عوام کے دوستوں کے بنیادی تحفظات یہ ہیں کہ وہاں جامع حکومت کی ضرورت کو نظر انداز کیا گیا۔جرمنی اور جاپان نے طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے حوالے سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے ،جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ افغانستان کے حالات کے بارے میں زیادہ پرامید ہونے کی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی، دوسرے گروہوں اور فریقین کی شرکت کے بغیر عبوری حکومت کا اعلان ، کابل میں مظاہرین اور صحافیوں پر تشدد ایسے اشارے نہیں ہیں جنہیں حوصلہ افزا تصور کیا جائے ،تاہم جرمنی طالبان سے بات چیت جاری رکھنے کیلئے تیار ہے ۔ جاپانی حکومت کے ترجمان نے کہا طالبان سے بات چیت جاری رکھیں گے ، افغان طالبان کے اقدامات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ازبکستان کی طرف سے افغانستان میں نگران حکومت کے قیام کا خیرمقدم کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ ہم نئی حکومت سے تعاون اور مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔قطر کی نائب وزیر خارجہ لولوۃ الخاطر نے کہا طالبان نے عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اور انھیں افغانستان کے غیر متنازعہ حکمرانوں کے طور پر ان کے اقدامات سے جانچا جائے ، ہم طالبان کو تسلیم کرنے میں جلدی نہیں کر رہے نہ ہی طالبان سے رابطے ختم کریں گے ، درمیانی راستہ اختیار کریں گے ،زمین پر لاجسٹکس میں مشکلات کے باوجود امید ہے کہ امداد کی کوششیں بحال ہوں گی۔ادھر انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے صدر پیٹر ماؤرر نے عالمی بینک سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان کے نظام صحت کو سپورٹ کرنے کیلئے اس کے فنڈز بحال کرے ۔ دوسری جانب افغانستان کے اندر موجود طالبان مخالف قوتوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کی اعلان کردہ نئی حکومت کو تسلیم نہ کریں،قومی مزاحمتی محاذ نے کہا ہے طالبان اور اُن کے ساتھیوں کی صرف مردوں پر مشتمل کابینہ غیرقانونی ہے ۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا سعودی عرب افغان عوام کے انتخاب اور بیرونی مداخلت سے پاک مستقبل کی خواہش کا احترام کرتا ہے ، امید ہے کہ نئی افغان حکومت ملک میں امن و استحکام لائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں