وزراکونوٹس پیغام،حکومت،الیکشن کمیشن تنائوکاانجام کیا؟

وزراکونوٹس پیغام،حکومت،الیکشن کمیشن تنائوکاانجام کیا؟

آئینی ادارہ اپنی ساکھ پر کمپرومائز کرنے ،پسپائی اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں ، ڈسکہ،کراچی،ضمنی،سینیٹ الیکشن، ووٹنگ مشین ایشوپرحکومت کوتحفظات

(تجزیہ: سلمان غنی) الیکشن کمیشن کی جانب سے وفاقی وزرا فواد چودھری، اعظم خان سواتی کو نوٹس جاری کرنے کا اقدام دراصل سیاسی محاذ پر ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے کہ الیکشن کمیشن جیسا آئینی ادارہ اپنی شہرت اور ساکھ پر کوئی کمپرومائز کرنے کیلئے تیار نہیں اور حکومت کی جانب سے کی جانے والی چڑھائی کے جواب میں پسپائی اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں۔ حکومت اپنے وزرا کو جاری نوٹس کو ہضم کر پائے گی؟ ۔حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان پیدا شدہ تناؤ کی کیفیت کا منطقی انجام کیا ہوگا؟۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ایشو پر انتخابات کی آزادانہ اور منصفانہ پوزیشن کے حوالے سے اپنا مؤقف 37 نکات کی صورت میں سینیٹ کی مجلس قائمہ کو بھجوایا گیاتھا لیکن ان کے اس مؤقف کے جواب میں وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کی جانب سے اس رد عمل نے کہ الیکشن کمیشن نے پیسے لگائے ہیں، ایسے اداروں کو آگ لگا دو، اس نے ایک آئینی ادارے کی ساکھ کو مجروح کر کے رکھ دیا تھا۔ اس کے فوری بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا یہ کہنا کہ الیکشن کمیشن اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹرز بن گیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے ماؤتھ پیس کے طور پر کام کر رہا ہے یہ ظاہر کر رہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے کردار کے بارے میں حکومت کے تحفظات ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ وزرا حکومتی پالیسی کے تحت شاید نوٹس کا جواب دینے سے بھی احتراز برتیں لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں اور آئین پاکستان کے تحت توہین عدالت کے الیکشن کمیشن کو ملنے والے اختیارات کے تحت یہ وفاقی وزرا بڑی مشکل سے دو چار ہو سکتے ہیں۔اس کے بعد کے مرحلہ میں انہیں شوکاز نوٹس بھی جاری ہو گا ۔وزرا کے پاس اس صورتحال سے نکلنے کا طریقہ اب اپنے طرز عمل پر معافی کے سوا کچھ نہیں۔کیا حکومت اور حکومتی ذمہ داران پسپائی اختیار کریں گے ؟۔ الیکشن کمیشن حکومتی ہدف تب بنا جب ڈسکہ کے انتخابی عمل میں سامنے آنے والی بدعنوانیوں اور انتظامیہ کے کردار پر الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا اور اس حوالے سے سامنے آنے والے تحقیقاتی عمل کے بعد انتظامی تبدیلیوں سمیت یہاں پر دوبارہ انتخابات ممکن بنے ۔ اس پر خود وزیراعظم عمران خان نے بھی الیکشن کمیشن کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر کراچی سمیت دیگر ضمنی انتخابات پر بھی حکومتی ذمہ داران الیکشن کمیشن پر لڑتے دکھائی دیئے ۔حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان تناؤ کی کیفیت اس وقت پیدا ہوئی جب حکومت نے سینیٹ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کی بجائے کھلا الیکشن کرانے کا اعلان کیا جس پر معاملہ سپریم کورٹ میں گیا او ر الیکشن کمیشن نے خفیہ رائے شماری کا ہی مؤقف اختیار کیا جس پر کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے کھلے انتخابات کا راستہ روک کر یہاں چوروں، ڈاکوؤں کو مسلط کرنے کا ذریعہ بنا دیا۔ الیکشن کمیشن نے کسی بھی مرحلہ پر اپنے آئینی کردار پر لچک نہ دی اور اب بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے حکومتی وزرا کو دیئے جانے والے نوٹس سے یہی ظاہر ہوتا ہے ، دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے حوالے سے تیاریوں میں مصروف ہے اور اگر وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے صرف نظر کرے گا تو پھر الزامات کا یہ سلسلہ معمول بن سکتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں