لگتا ہے افغانستان کے مسائل ختم نہیں ہو پائے

لگتا ہے افغانستان کے مسائل ختم نہیں ہو پائے

طالبان پر نیا دباؤ آ رہا وہ تاجک ’ ازبک اور ہزارہ افراد کوشریک کریں ، پاکستان کو طالبان پر دباؤ کے لئے ایک حد سے آگے نہیں جانا چاہئے

(تجزیہ:سلمان غنی) پاکستان شروع سے ہی افغان مسئلہ کے سیاسی حل کے ساتھ یہاں ایک متفقہ حکومت کے قیام کا خواہاں رہا اور اس حوالے سے بہت حد تک کردار ادا کر رہاہے ۔تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبے میں منعقدہ کانفرنس کے دوران افغانستان کے ہمالیہ ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے عمل میں طے پایا کہ یہاں متفقہ حکومت کے قیام کیلئے تاجک ’ازبک اور ہزارہ کی افغان حکومت میں شمولیت اور شرکت کویقینی بنانے کیلئے پیش رفت شروع کی جائے ۔افغان حالات معاملات پر توجہ دی جائے تو باوجود اس امر کے کہ یہاں طالبان ہر اعتبار سے غالب آ چکے ہیں لیکن عملاً صورتحال یہ ہے کہ انہیں یہاں معاشی مسئلے کے ساتھ خوراک اور روپے پیسے سمیت دیگر شدید بحران درپیش ہیں اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کیا ان کے پاس ایسے قابل باصلاحیت لوگ موجود ہیں جو ان مسائل سے سرخرو ہوپائیں گے ۔اب تک کی صورتحال سے تو ایسے لگتا ہے کہ افغانستان کے مسائل ختم نہیں ہوئے اوریہ ضرور ہوا کہ امریکا اور اس کے اتحادی یہاں سے چلے گئے لیکن اب سارا بوجھ طالبان کے کندھوں پر آ گیا۔پندرہ اگست کے بعد اکتیس اگست تک یہاں کوئی باقاعدہ حکومت تو موجود نہ تھی لیکن طالبان نے معاہدے کے تحت اکتیس اگست تک انتظار کیا اور بعد ازاں ان کی جانب سے عبوری حکومت کا قیام عمل میں آ گیا اور طالبان کی اگر حکومت کی تشکیل کو دیکھا جائے تو اس میں پشتونوں کے ساتھ تاجک ’ازبک اور ہزارہ افراد بھی حکومت میں شامل ہیں۔اب طالبان پر نیا دباؤ آ رہا ہے کہ وہ تاجک ’ ازبک اور ہزارہ افراد کو ساتھ شریک کریں اور غالباً اس کا مقصدیہ ہے کہ ان قبیلوں کے نمایاں اور محفوظ افراد کو حکومت کا حصہ بنایا جائے ۔طالبان کی اب تک کی سیاست اور موقف کو دیکھا جائے تو وہ ہر حوالے سے پاکستان کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے نظر آ رہے ہیں۔پاکستان کو طالبان پر دباؤ کیلئے ایک حد سے آگے نہیں جانا چاہئے کیونکہ آج جب ہم طالبان کو یہ کہتے اور ان پر دباؤ ڈالتے نظر آئیں گے کہ افغان طالبان افغانستان میں محفوظ گروپوں اور قبیلوں کو اکاموڈیٹ کریں تو یہ سوال بھی کھڑا ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے حالات کے پیش نظر اگر یہاں قومی حکومت کی بات شروع ہو تو کوئی سیاسی قوت اپنے سیاسی مخالفین کو حکومت میں اپنے ساتھ بٹھانے اور مل کر حکومت چلانے پر تیار ہو گی ۔کیا وزیراعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ’ بلاول بھٹو’ فضل الرحمن کو حکومت میں شامل ہونے کی آفر دیں گے ۔لہذا اس حوالے سے ہمیں جو بھی مؤقف اختیار کرنا ہو گا وہ ہر حوالے سے حقیقت پسندانہ ہونا چاہئے اور طالبان کی حکومت پرفیصلے مسلط کرنے کی بجائے افغانستان کے استحکام کیلئے تجاویز کی صورت میں ان کے سامنے رکھا جائے انہیں اپنی ٹیم اور ذمہ داران کا انتخاب بہت خوب سوچ سمجھ کر کرنا ہے اور وہ ایسی کوئی چیز نہیں کریں گے جو خود حکومت میں حکومت کیلئے ہی مشکل کا باعث ہو اور بڑے بڑے چیلنجز کے ساتھ خود حکومت کے اندر کھینچاتانی کا ماحول طاری رہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں