حکومت ای وی ایم سے متعلق اپوزیشن سے مذاکرات کرے
اعتماد کی فضا بحال کرکے حکومت انتخابی اصلاحات کا ایک پیکیج پارلیمنٹ میں لائے ، تحفظات کے بعد کیا الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر آئینی کردار ادا کر پائیں گے ؟
(تجزیہ:سلمان غنی) حکومت کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کے کردار پر تحفظات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت آنے والے انتخابات میں انہیں برداشت کرنے کو تیار نہیں ہو گی۔وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے الیکشن کمشنر اور خصوصاً الیکشن کمیشن کی جانب سے ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین)پر اٹھائے جانے والے اعتراضات پر سخت تنقید کی اور کہا کہ چیف الیکشن کمشنر انتخابی اصلاحات کے مخالف نظر آ رہے ہیں لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے تحفظات کے بعد کیا الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر اپنا آئینی کردار ادا کر پائیں گے ، ای وی ایم پر الیکشن کمیشن کے اعتراضات میں کیا صداقت ہے ؟ کیا ایک آئینی ادارہ اور اس کے ذمہ دار کو دباؤ کے ذریعے استعفے پر مجبور کیا جا سکتا ہے ،تحریک انصاف اور خود وزیراعظم عمران خان ہمیشہ سے قومی اداروں کو متنازعہ بنانے کے خلاف رہے ہیں ۔وفاقی وزرا کی تنقید سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ادارے کو اندرونی طور پر بحران سے دو چار کرنا چا رہے ہیں لیکن کیا حکومت اس حوالے سے من مانی کر پائے گی اور چیف الیکشن کمشنر کو دباؤ میں لایا جا سکے گا ، فی الحال تو ایسا محسوس نہیں ہوتا جہاں تک ای وی ایم کو ایشو بنانے کا سوال ہے تو حکومت کی جانب سے اس فیصلہ پر الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات باقاعدہ اٹھائے ہیں لیکن حکومت اگر اس حوالے سے اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھتی تو ایسا ممکن نہ تھا اور ظاہر یہ ہو رہا ہے کہ ای وی ایم پر اپوزیشن ہی نہیں سول سوسائٹی اور دیگر طبقات فکر کے بھی تحفظات ہیں لہٰذا ای وی ایم پر پیدا شدہ صورتحال پر یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ حکومت اس حوالے سے کیونکر ضد کا شکار ہے اور اگر حکومت زبردستی یا پارلیمنٹ سے اکثریت کی بنا پر ہی اس پر قانون سازی کرے تو یہ قانون پہلے روز سے ہی متنازعہ بن جائے گا لہٰذا اس ملک میں انتخابات کے نتیجہ میں استحکام خواب رہا ہے لہٰذا ایک جمہوری حکومت ہونے کی حیثیت سے حکومت کو چاہیے کہ ای وی ایم کے ایشو پر ڈیڈ لاک توڑے اور اپوزیشن جماعتوں سے ڈائیلاگ کا بندوبست کرے اور باہمی اعتماد کی فضا کو بحال کیا جائے اور انتخابی اصلاحات کا ایک جامع پیکیج پارلیمنٹ میں لائے ۔