طالبان حکومت، پاکستان کاذمہ دارانہ پیغام،کچھ قوتیں نالاں

 طالبان حکومت، پاکستان کاذمہ دارانہ پیغام،کچھ قوتیں نالاں

پاکستان ماضی میں اکیلارہ گیاتھا،علاقائی طاقتیں بھی متفقہ حکومت چاہتی ہیں ، پاکستان پرالزام لگانے والوں کوطالبان کاپیغام،بھارت کوتبدیلی ہضم نہیں ہوئی

(تجزیہ:سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کو ہمسایہ ممالک کے فیصلہ سے مشروط کرنے کے اعلان کو حقیقت پسندانہ اور ذمہ دارانہ پیغام قرار دیا جاسکتاہے ۔پاکستان ماضی میں بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے بعد اکیلا رہ گیا تھا۔اب وہ نہیں چاہتا کہ وہ اس حوالے سے جلدی کرے ۔پاکستان نئے حالات میں محتاط طرز عمل اختیار کر رہا ہے ۔یہ خوش آئند عمل ہو گا جب خطہ کی تمام بڑی قوتیں خصوصاً چین، روس، ایران، ترکی سمیت دیگر مل کر افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ خطہ کی طاقتیں افغانستان میں متفقہ حکومت کوتسلیم کرناچاہتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا مناسب ہے کہ طالبان افغانستان میں جامع حکومت تشکیل دیں ورنہ وہاں خانہ جنگی ہو سکتی ہے ۔افغانستان کے حالات و واقعات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو طالبان کے غلبہ کے باوجود ابھی کچھ ایسی قوتیں ضرور ہیں جو اس سیاسی تبدیلی کو ہضم نہیں کر پا رہیں اور اپنے کسی رد عمل کے حوالے سے آنے والے وقت کے انتظار میں ہیں اور یقیناً ایسی قوتوں کو بیرونی امداد بھی مل سکتی ہے جو نہیں چاہتی تھیں کہ افغانستان میں طالبان برسر اقتدار آئیں ۔خود طالبان کی جانب سے یہ اعلان آ چکا ہے کہ مستقل حکومت کے قیام کے لیے صلاح مشورہ جاری ہے اور وقتی طور پر طالبان اپنی حکومت میں لوگوں کو شامل کرتے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دوشنبے کانفرنس کے بعد اعلان کیاگیا تھا کہ افغان حکومت میں ازبک اور ہزارہ کی شرکت کے لیے طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کر رہے ہیں جس کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ ابھرا کہ شاید طالبان اس بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ قرار دے ڈالیں لیکن طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد کی جانب سے یہ کہنا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے وزیراعظم عمران خان کی کوششیں قابل تعریف ہیں یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے افغانستان بارے بیانات اور اعلانات کو جذبہ خیر سگالی کے تحت ہی سمجھتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ پاکستان افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر رہا اور یہ کہ امارت اسلامیہ پاکستان، چین، قطر اور دیگر ملکوں کو افغانستان کا خیر خواہ سمجھتی ہے ۔ افغان طالبان کے ترجمان کا یہ بیان ان ملکوں کے لیے بھی واضح پیغام ہے جو پاکستان پر یہ الزامات لگاتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت کر رہا ہے اور اہم فیصلے پاکستان کی مشاورت سے ہو رہے ہیں خصوصاً بھارت کو افغانستان میں آنے والی سیاسی تبدیلی ہضم نہیں ہو رہی۔وہ براہ راست افغانستان کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی کر کے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔افغان طالبان کے ترجمان کی جانب سے یہ اعتراف کہ افغانستان میں مشترکہ اور جامع حکومت کی جانب بڑھ رہے ہیں ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت خود بھی اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے کہ افغانستان کو بحرانی اور طوفانی کیفیت سے نکال کر استحکام کی منزل پر لے جانے کے لیے تمام اہم قوتوں کا مل بیٹھنا اور حکومت میں اکٹھا ہونا ضروری ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں