صدارتی نظام جب بھی آیا نقصان ہوا ، ملک ٹوٹا : سپریم کورٹ ، تمام درخواستیں خارج

صدارتی نظام جب بھی آیا نقصان ہوا ، ملک ٹوٹا : سپریم کورٹ ، تمام درخواستیں خارج

1958 جیسے حالات نہیں دہراناچاہتے ،نظام بدلنے کا اختیار نہیں :جسٹس عمرعطا ،عدالت کوسیاسی معاملات میں نہ الجھائیں:جسٹس منصورعلی ، کیا عدالت وزیراعظم کو حکم جاری کر دے ؟:جسٹس منیب ، صدارتی نظام رائج کرنے بارے احمدرضاقصوری کی درخواستیں ناقابل سماعت قرار

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ نے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے سے متعلق درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے نمٹا دیا،سپریم کورٹ نے کہا صدارتی نظام جب بھی آیانقصان ہوا،عوام سے ظلم ہوا،ملک ٹوٹا ۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 1958 جیسے حالات نہیں دہراناچاہتے ،نظام بدلنے کا اختیار نہیں ۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا عدالت کوسیاسی معاملات میں نہ الجھائیں،جسٹس منیب اختر نے کہاکیا عدالت وزیراعظم کو حکم جاری کر دے ؟، عدالت نے قرار دیا کہ آئین کی بنیاد پارلیمانی نظام ہے ، آئین میں عدالت کو ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کا حکم دے ۔جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے احمد رضا قصوری کی جانب سے دا ئرصدارتی نظام رائج کرنے سے متعلق درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس د یئے کہ ملک میں جب بھی جس بھی طریقے سے صدارتی نظام آیا اس کا نقصان ہوا، ہم 1958 جیسے حالات کو دہرانا نہیں چاہتے ،درخواست گزاروں نے تحریک چلانی ہے تو سیاسی تحریک چلائیں، ایک نظام کو ختم کرکے دوسرا نظام لانے اور سیاسی نظام بدلنے کا ہمارے پاس اختیار نہیں ۔ عدالت نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے چاروں درخواستوں پر لگائے گئے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواستو ں کو نمٹا دیا ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاآپ عدالت کے چار اپریل 2021 کو دیئے گئے حکم کے خلاف اپیل میں آئے ہیں اور اس عدالت کے سامنے رجسٹرار کے اعتراضات کا معاملہ ہے ۔ احمد رضا قصوری نے دلائل دیئے کہ انہو ں نے صدارتی نظام کے رائج کر نے کیلئے درخواستیں دا ئر کیں تو رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا دیا، میں نے وزیراعظم کو خط لکھا لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا اس لئے عدالت آنا پڑا،ہماری درخواست تکنیکی وجوہات کی بنا پر واپس کی گئی۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آپ کا یہ کیس ہے کہ کوئی بھی شخص عدالت میں آ کر استدعا کرے کہ عدالت وزیراعظم کو حکم جاری کر دے ؟ اس دوران احمد رضا قصوری نے مداخلت کی تو جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ تقریر کرنے لگ جاتے ہیں، آپ پارلیمنٹ میں نہیں کھڑے یہ سپریم کورٹ ہے ، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ملک میں طاقت ور سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ اور دیگر فورمز موجود ہیں تو آپ عدالت کے سامنے کیوں آئے ہیں؟۔ احمد رضا قصوری نے کہا سیاسی جماعتوں کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ ان کے ارکان کیا کرتے ہیں۔ پارلیمان اور ٹاک شوز میں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے آئین کے آرٹیکل 48 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اگر ضروری سمجھیں تو ریفرنڈم کرا سکتے ہیں، وزیراعظم اگر یہ سمجھیں کہ یہ قومی ایشو ہے تو وہ ریفرنڈم کے لئے کہہ سکتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ایک عام آدمی عدالت میں آئے اور چیلنج کر دے کہ وزیراعظم کو حکم دیا جائے کہ صدارتی نظام کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے ۔احمد رضا قصوری نے کہا میں عام آدمی نہیں ہو ں آئین بنانے والوں میں سے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے پارلیمانی نظام کے لئے آئین بنایا اور پارلیمانی آئین پر دستخط کئے کیا اب آپ پارلیمانی نظام پر سوال اٹھا رہے ہیں؟۔ احمد رضا قصوری نے کہا انہوں نے پارلیمانی نظام کے کسی کاغذ پر دستخط نہیں کئے ۔ پیپلزپارٹی والے جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ متفقہ آئین ہے ۔ 1973 کا آئین متفقہ طور پر منظور نہیں ہوا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی بھی شخص عدالت میں آ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ عدالت وزیراعظم کو حکم دے کہ ریفرنڈم کرائیں، کیا کوئی عدالت میں آ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ عوامی مفاد کا مسئلہ ہے اس پر حکومت کو حکم جاری کیا جائے ؟۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ حق دعویٰ نہیں رکھتے ۔ تمام سیاسی جماعتیں اس معاملے میں حق دعویٰ رکھتی ہیں، اس لئے عدالت سے آپ رجوع نہیں کر سکتے ۔ہم آئین و قانون کے تابع ہیں۔ عدالت کے پاس جو بھی اختیار ہے وہ قانونی طریقے سے استعمال ہوتا ہے ۔ یہ سیاسی معاملہ ہے ،سیاسی لوگوں نے قانون تیار کرنا ہے ،ہمیں ایسا کوئی اختیار نہیں ،ہم یہ درخواست کسی صورت منظور نہیں کر سکتے ۔ درخواست گزار کے وکیل خالد عباس نے دلائل دیتے ہوئے کہا موجودہ نظام میں بہت بڑی خامیاں ہیں،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے آئین دیکھا ہے ؟، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جہاں صدارتی نظام ہے وہاں بھی اکثریت کی بنیاد پر صدر منتخب ہوتا ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزاروں سے کہا عدالت کو عام لوگوں کے مسائل حل کرنے دیں۔ ان سیاسی معاملات میں نہ الجھائیں۔دوسرے درخواست گزار ڈاکٹر صادق علی نے کہا پارلیمنٹ اگر کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف بناتی ہے تو عدلیہ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے ، جسٹس منیب اختر نے درخواست گزار سے سوال کیا کہ ملک میں صدارتی نظام کب لگا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ صدر ایوب نے صدارتی نظام نافذ کیا اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا صدر ایوب نہیں بلکہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1958 کا آئین معطل کر کے مارشل لا لگایا اور 1962 میں نیا آئین دے کر صدارتی نظام نافذ کیا، 1984 اور 2002 میں بھی صدارتی ریفرنڈم ہوئے اور صدارتی نظام میں ملک کے عوام کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ بھی سب نے دیکھا،ملک بھی 1962 کے صدارتی نظام کے دوران ٹوٹا تھا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار سے کہا آپ قرآن پاک کا حوالہ دے رہے ہیں تو آئین کے آرٹیکل 2-A میں صدارتی نظام کا ذکر کہاں ہے ؟ آپ یہ بتائیں کہ کس حوالے سے اس عدالت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ صدارتی نظام نافذ کرنے کا حکم دے ،جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا اسلام میں صدارتی نظام کا تصور کہاں ہے ؟،اس نظام میں خرابیاں ہو سکتی ہیں جن کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے لیکن نظام کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے شعر پڑھتے ہوئے کہا کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے ،بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا،ہم سب اسی دیدہ ور کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں،خلفائے راشدین جیسی قیادت ہر شخص کی خواہش ہے ، ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے ، اب خلفائے راشدین جیسی قیادت ملنا ممکن نہیں، قائداعظم نے بھی جمہوریت کی بات کی تھی۔ عدالت میں آنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو قوم کا بہت درد ہے لیکن صدارتی نظام کا حکم دینا ہمارے اختیار میں نہیں ہے ۔ ملک میں متعدد بار ہم نے صدارتی نظام دیکھ لیا جو کامیاب نہیں ہو سکا۔عدالت نے سماعت کے بعد درخواستو ں کو نمٹا دیا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں