پختونخوا میں کرپشن اتنی زیادہ ہے عوام کو کچھ ڈلیور نہیں ہوسکتا : چیف جسٹس

پختونخوا میں کرپشن اتنی زیادہ ہے عوام کو کچھ ڈلیور نہیں ہوسکتا : چیف جسٹس

ایرا نے 2005کے زلزلے کے بعد اب تک کچھ نہیں کیا،دنیا بھر سے پیسہ آیا اس سے کیا تعمیر کیا؟ جسٹس گلزار کا سوال ، دہشت گرد ٹھیکیداروں سے بھتہ مانگ رہے ، دھمکیاں بھی دے رہے ، کئی کام چھوڑ کر بھاگ گئے ، جسٹس مظہر عالم ، متاثرہ علاقوں میں بحالی کے کاموں کی رپورٹ مسترد ،ایرا کو تمام منصوبوں کی تفصیل تصویری شواہد سمیت پیش کرنیکا حکم

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ نے 2005کے زلزلے میں خیبر پختونخوا کے زلزلہ زدہ علاقوں میں متاثرہ سکولوں کی عدم بحالی کے خلاف از خود نوٹس کیس پر سماعت کے دوران زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بحالی اور ترقیاتی کاموں سے متعلق ایرا کی رپورٹ بھی مسترد کردی جبکہ عدالت نے صوبائی حکومت اور ایرا کی کارکردگی کے بارے سخت سوالات اٹھائے ہیں ۔ دوران سماعت صوبے میں ترقیاتی کام کرنے والے ٹھیکیداروں سے بھتہ مانگنے کا انکشاف بھی ہوا ہے ۔عدالت نے ایرا کو مکمل کیے گئے تمام منصوبوں کی تفصیلی رپورٹ تصویری شواہد سمیت پیش کرنے کا حکم دیا ۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ایرا کی رپورٹ صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ،چیف جسٹس نے ایرا کی کارکردگی پر سوال اٹھایا اورکہا زلزلہ متاثرین کی مدد تو قوم نے کی تھی، کراچی سے بھی لوگ متاثرین کی امداد کے لئے گئے تھے ، لوگوں نے تو حج کا پیسہ بھی زلزلہ متاثرین کو دے دیا تھا، ایرا نے کیا کیا؟ بین الاقوامی امداد بھی آئی، لوگوں نے بھی پیسہ دیا اور حکومت نے بھی، متاثرہ علاقوں میں تو مثالی ترقی ہونی چاہئے تھی، زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کو تو دو سال میں دوبارہ بن جانا چاہئے تھا۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے دہشت گرد ٹھیکیداروں سے بھتہ مانگ رہے اور دھمکیاں بھی دے رہے ہیں، کئی ٹھیکیدار بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں کام چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا نے بھتہ مانگنے کے واقعات سے لاعلمی کا اظہار کیا اوربتایا عدالت کی نشاندہی پر متعلقہ حکام سے رپورٹ حاصل کر لی جائے گی جس پر جسٹس مظہر عالم نے چیف سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا لگتا ہے کمشنر اور ڈی سی نے آپ کو اس سنگین مسئلے سے آگاہ نہیں کیا۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے صوبائی حکومت کا دفاع کیا اور کہا صوبائی حکومت نے دو ماہ میں 148 سکول تعمیر کرکے فعال کر دئیے ۔ چیف جسٹس نے کہا سکول اب بن رہے ہیں 16 سال بچے کیا کرتے رہے ؟ کتنے بچے سکول نہ ہونے کی وجہ سے بھاگ گئے ہوں گے ۔فاضل چیف جسٹس نے تعمیراتی کام کے معیار پر بھی سوالات اٹھائے اور ریما رکس دئیے جیسی عمارتیں بن رہی ہیں وہ تو چھ ماہ میں گر جائیں گی، بچوں اور اساتذہ کی زندگیاں خطرے میں لگ رہی ہیں، خیبرپختونخوا میں کرپشن اتنی زیادہ ہے کہ عوام کو کچھ ڈلیور نہیں ہو سکتا۔چیف جسٹس نے کہا ایرا نے 2005 زلزلے کے بعد سے اب تک کچھ نہیں کیا،اتنا ایرا نے کام نہیں کیا جتنا عوام نے زلزلہ زدگان کی جا کر مدد کی،ایرا نے بتایا کہ اس کو 592 ارب روپے ملے ، اس رقم سے کیا تعمیر کیا؟ سارے سکول ٹوٹے پڑے ہیں آپ کر کیا رہے ہیں؟ ہم کس دور میں جی رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے ؟ 2005 میں زلزلہ آیا دنیا بھر سے پیسہ آیا دو سال میں سب از سر نو تعمیر ہو جانا چاہئے تھا، ایسے نئے شہر بنتے جو دنیا کے نقشے پر مثال قائم کرتے ، جو مستقبل میں اس قوم کے معمار ہیں ان کے ساتھ کیا حال کر رہے ہیں آپ؟ چیئرمین صاحب آپ بس کاغذات دکھا رہے ہیں جو بس نظر کا دھوکا ہیں، چیئرمین ایرانے کہا ہم نے بہت سے گائوں تعمیر کیے ہیں اجازت دی جائے کہ تفصیل عدالت میں پیش کروں۔چیف جسٹس نے کہا جتنے گائوں ایرا نے زلزلے کے بعد تعمیر کیے ان کی تصاویر کے ساتھ تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔عدالت نے مزید سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں