ایسا نہیں ہوسکتا کہ باپ کے بعد بیٹا بھرتی ہو جائے : چیف جسٹس

ایسا نہیں ہوسکتا کہ باپ کے بعد بیٹا بھرتی ہو جائے : چیف جسٹس

قانون کم آمدن والے ملازمین کیلئے بنا ،بھرتی افسروں کے بچے ہوتے رہے ، اطلاق 2005کے بعد انتقال پر ہوگا ، وفاق ،صوبوں سے سرکاری رہائشگاہوں کی تفصیل طلب، لاہور پولیس کے اہلکار کی سروس معطلی کیخلاف اپیل مسترد

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا باپ کی جگہ بیٹے کو نوکری دینے کا قانون عجیب و غریب ہے ،اس طرح نوکریاں دینے سے میرٹ کا مکمل خاتمہ ہوتا ہے ،ایسا نہیں ہو سکتا کہ باپ کے بعد بیٹا بھرتی ہو جائے ، یہ قانون کم آمدن والے ملازمین کیلئے بنا تھا لیکن بھرتی افسران کے بچے ہوتے رہے ،اے ایس آئی کا بیٹا کہتا ہے ڈائریکٹ ڈی ایس پی بھرتی کرو۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے باپ کی جگہ بیٹے کو سرکاری ملازمت دینے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے قرار دیا کہ وزیراعظم پیکیج کے تحت سرکاری ملازمت کے اہل وہی بچے ہوں گے جن کے والد کا انتقال 2005 کے بعد ہوا ہو،چیف جسٹس نے کہا سرکاری دفاتر وراثت میں ملنے والی چیز تو نہیں، چیف جسٹس نے وزیر اعظم پیکیج کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے ، جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا ابتدائی طور پر یہ قانون پولیس اور دیگر شہدا کے لئے تھا، دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا سراج محمد کے والد لعل محمد سال 2000 میں دوران سروس انتقال کر گئے تھے جبکہ وزیر اعظم پیکیج کا اطلاق 2005 سے ہوتا ہے ،سراج محمد نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے اپنے والد کی جگہ بھرتی ہونے کی درخواست دی جو وفاقی وزارت تعلیم نے مسترد کردی لیکن پشاور ہائیکورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ،چیف جسٹس نے کہاایسا نہیں ہو سکتا کہ باپ کا انتقال ہو تو بیٹا بھرتی ہو جائے ،عدالت نے سماعت کے بعد پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر کیس نمٹا دیا ہے ۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے سرکاری رہائش گاہوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں سے سرکاری رہائش گاہوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی، عدالت نے قرار دیا کہ سندھ حکومت نے صرف کراچی کی رہائش گاہوں کی تفصیلات جمع کرائیں،دیگر اضلاع میں موجود سرکاری رہائش گاہوں کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں، دوران سماعت سیکرٹری محکمہ ہائوسنگ سندھ نے کہا سرکاری گھر صرف سیکرٹریٹ ملازمین کو الاٹ ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ دیگر محکموں کے سرکاری ملازمین کا کیا قصور ہے ؟عدالت نے کہا آئندہ سماعت پر سندھ حکومت کی سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ پالیسی اور رولز پر غور کریں گے ۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے چوری اور سٹریٹ کرائم میں ملوث لاہور پولیس کے اہلکار شاہد نذیر کی دو سال سروس معطلی کے خلاف اپیل مسترد کردی، عدالت نے استغاثہ اور پنجاب پولیس کی طرف سے ملزم کے خلاف فوجداری مقدمات کی پیروی نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا پنجاب پولیس اور استغاثہ نے پولیس اہلکار کے خلاف درج مقدمات کے مدعیوں سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟پولیس کا کام تھا مدعیوں کو تحفظ فراہم کرکے مقدمات بحال کراتی لیکن پولیس کی پیٹی بھائی کو سزا دلوانے میں دلچسپی ہی نہیں، پولیس میں سب لوگ ایک دوسرے کیساتھ ملے ہوئے ہیں،کیا ریاست کا کام صرف مقدمات درج کر کے اپنا اور دوسروں کا مذاق بنانا ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں