مہنگائی : حکومت خودکو جوابدہ سمجھتی نہ اپوزیشن آواز اٹھاتی
اشرافیہ دولت میں کھیل رہے ، اس لیے مہنگائی ان کا ذاتی مسئلہ نہیں ، لوگ خود کشیاں کرتے نظر آ رہے ،حکمرانوں کی آنکھیں کھل نہیں پا رہیں
(تجزیہ: سلمان غنی) بجلی، پٹرولیم اور گیس کی قیمتوں میں پے در پے ہونے والا اضافہ اور اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں لگنے والی آگ سے اب شاید ہی کوئی محفوظ ہو گا ورنہ ملک بھر میں مہنگائی کی دہائی نے مایوسی کی ایسی کیفیت طاری کر دی ہے کہ مسائل زدہ عوام کو کچھ نظر نہیں آ رہا اور زیادہ مایوس کن بات یہ کہ نہ تو اس رجحان پر حکومت خود کو جوابدہ سمجھتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن ہوشربا مہنگائی کے اس عمل پر عوام کی آواز بننے کو تیار ہے ۔ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بیچارے حکمران پالیسی ساز اور اشرافیہ دولت میں کھیل رہے ہیں جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا اس لیے مہنگائی کا مسئلہ ان کا ذاتی مسئلہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سنگ دلانہ فیصلے آسانی سے کر لیے جاتے ہیں،اشیائے ضروریات خصوصاً خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ تو ہو ہی رہا ہے لیکن دوسری جانب بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں کو بھی پہیے لگ چکے ہیں جو رکنے کا نام نہیں لے رہے ، ایک وقت تک تو حکومت نے معاشی صورتحال کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈالا لیکن اب تین سال بعد عالمی رجحان کو جواز بنا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ، کیا حکومت بری الذمہ ہو پائے گی، ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا،مہنگائی کے طوفان نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے تو دوسری جانب سٹریٹ کرائمز میں اضافہ شروع ہو گیا ہے اور ملک بھر میں کوئی بھی دن ایسا نہیں جاتا ہو گا کہ بھوک، افلاس کے ہاتھوں خود کشیوں کی خبریں سامنے نہ آتی ہوں۔ یہاں لوگ اپنے بچوں کے ساتھ خود کشیاں کرتے نظر آ رہے ہیں مگر حکمرانوں کی آنکھیں کھل نہیں پا رہیں ان کے اندر نہ تو مسائل کا ادراک ہے اور نہ ہی ان کے حل کا جذبہ اور اہلیت، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان جب مہنگائی پر آہ و پکار سنتے ہیں تو ایک منتخب وزیراعظم کے طور پر اس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ہدایات دیتے نظر آتے ہیں مگر ان ہدایات کے نتیجہ میں اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں کمی آنے کی بجائے اور اضافہ ہو جاتا ہے ،منافع خوری کیلئے ذخیرہ اندوزی بڑا جرم ہے لیکن دیکھا جائے تو اس جرم کی سب سے بڑی مجرم خود حکومت ہے ۔ پٹرول، بجلی اور گیس جیسی بنیادی ضرورت پر حکومت اور بڑے سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں کے تعین کا اختیار خود حکومت کو حاصل ہو گیا ہے اور اب یہ طبقہ اتنا طاقتور ہے کہ حکومتوں کو بھی غلام بنا چکا ہے ۔ مہنگائی کا ایسا طوفان آ چکا ہے جس نے عوام کے اعصاب کو سلامت نہیں رہنے دیا۔ طرز حکمرانی کی ناکامی ،حکومت کے تمام دعوؤں کی حیثیت عیاں کر دی، قومی آمریت اور سابقہ حکمران جماعتوں کے بعد تبدیلی کا تجربہ بھی عملاً ناکام ہو چکا ہے ، یہ ناکامی غیر متوقع نہیں اس لیے کہ ان کی حکومت کو مسائل اور مشکلات کا ادراک بھی نہیں تھا اور جب مسائل کا ادراک نہیں ہوتا تو ایسی حکومتیں کبھی مسائل کا حل نہیں نکال پاتیں اور آج کراچی سے خیبر تک عوام مہنگائی، بے روزگاری، چور بازاری کے آگ میں جل رہے ہیں اور کوئی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کو تیار نہیں جہاں تک بجلی کی قیمتوں میں صرف ایک ماہ میں تین مرتبہ اضافہ کا سوال ہے تو یہ سارا عمل آئی ایم ایف کے دباؤ پر ہے ،حکومت تو چند ماہ پہلے بتا رہی تھی کہ حکومت اور نئی کمپنیوں کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد بجلی وافر بھی ملے گی اور سستی بھی لیکن اس حکومت کے دور میں اب کوئی ہفتہ ایسا نہیں جا رہا کہ عوام کو بجلی کے بلوں کے ذریعے جھٹکے نہ لگائے جاتے ہوں ۔اگر چینی کی قیمتوں کو ہی کیس بنا لیا جائے تو حکومت کی جانب سے 85 روپے فی کلو کے واضح اعلان کے بعد شاید ایک جگہ بھی ایسی نہ ہو کہ جہاں اس قیمت پر چینی مہیا ہو عملاً چینی کی قیمتیں ایک سو سے اوپر ایک سو پندرہ تک وصول کی جا رہی ہیں ایسا کیوں ہے اور کون اس کا باعث ہے اور حکومت اگر اس کا کھوج نہیں لگا پاتی تو دیگر اشیا ضروریات کا کیا بنے گا؟۔ مسائل زدہ عوام کو اپنی پڑی نظر آ رہی ہے اور جب حکمرانوں اور عوام کے درمیان اس حد تک فاصلے قائم ہوں تو پھر یہ معاملات خطرناک اور تشویشناک ہو جاتے ہیں اور اگر حکومت اب بھی اس صورتحال کا ادراک نہیں کر پا رہی تو پھر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مایوسی اور بے یقینی کسی اور صورتحال کو جنم دے سکتی ہے ۔