حکومت ، اپوزیشن میں محاذ آرائی، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
مڈٹرم الیکشن جمہوری عمل،موجودہ حالات میں اس کا امکان نظر نہیں آرہا ، انتخابی اصلاحات پر ڈیڈ لاک برقرار، حکومتی رویہ کسی طور جمہوری نہیں
(تجزیہ:سلمان غنی) ملک کو در پیش اندرونی و بیرونی چیلنجز کے ضمن میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر تنقید کے ساتھ یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ ملک کو در پیش مہنگائی، بے روزگاری کے رجحان پر قابو پانے کیلئے ایک نئے مینڈیٹ کی حامل حکومت قومی ضرورت ہے جبکہ حکومت اپنے 5 سالہ مدت اور مینڈیٹ پر کاربند ہے اور اس کا مؤقف یہ ہے کہ ان کی حکومت کامیاب ہے یا ناکام تو یہ فیصلہ 2023 کے انتخابات میں عوام کریں گے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا قبل از وقت انتخابات کے امکانات ہیں؟ کیا حکومت اس پر تیار ہو پائے گی؟ اور نئی آنے والی حکومت ملک کو در پیش مسائل سے نجات دلا پائے گی؟ جمہوریت میں قبل از وقت انتخابات کا آپشن کوئی غیر جمہوری نہیں اور دنیا کے متعدد ممالک میں جب ملک بحرانوں سے دو چار ہوتے ہیں اور حکومتیں اپنے حلقوں کو گرداب سے نہیں نکال پاتیں تو پھر حکمران خود عوام سے رجوع کرتے ہیں، پاکستان میں بھی بڑھتے ہوئے بحرانوں میں ایوان صدر 58 ٹو بی کا استعمال کرتے ہوئے حکمرانوں کو چلتا کرتے رہے ہیں اور دوبارہ انتخابات کا انعقاد ممکن بن جاتا تھا لیکن 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ایوان صدر سے ایسی کسی مداخلت کا راستہ ختم کر دیا گیا اور حکومتیں خواہ ڈیلیور کر رہی ہوں یا ایسا ممکن نہ بن پا رہا ہو حکومتوں کو مدت پوری کرنے کا موقع ملتا رہا اور اس کا یہ نقصان بھی دیکھنے میں آیا کہ پانچ سالہ مدت پوری کرنے والی بعض جماعتیں اپنی عدم کارکردگی کے باعث کسی ایک صوبہ تک محدود ہو گئیں اور عوام نے دوسری مرتبہ انہیں اپنے اعتماد کا ووٹ نہ دیا جس کی ایک مثال 2008 میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی بعد ازاں مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی سیاسی جماعتوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود اپنی مدت پوری کی اور اب موجودہ حکومت پر یہ دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ یہ حکومت عوامی محاذ پر ڈیلیور کرنے میں ناکام ہے اور خصوصاً ہر آنے والے دن میں معاشی بحران بڑھتا چلا جا رہا ہے لہٰذا فوری طور پر ملک میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کرائے جائیں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن بن پائے گا فی الحال تو اس کا امکان نظر نہیں آ رہا البتہ آنے والے انتخابات کو آزادانہ اور شفاف بنانا اصل ضرورت ہے مگر بڑا سیاسی المیہ یہ ہے کہ اس حوالے سے سیاسی قوتوں کی جانب سے سنجیدگی کا اظہار نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی حکومت اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات کے ایجنڈا پر مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب رہی اور اگر اس حوالے سے کوئی مؤثر پیش رفت نہیں ہوتی تو آنے والے انتخابات کے حوالے سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے نتیجہ میں بھی بننے والی حکومت کو ایسے ہی چیلنجز در پیش ہوں گے ، پیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس حوالے سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ جلد ہی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ۔ماضی میں باوجود اختلافات قومی معاملات پر حکومت اپوزیشن ملکر بعض معاملات میں پیشرفت کرتے رہے ہیں، خود پیپلز پارٹی کے دور میں اس وقت کی اپوزیشن مسلم لیگ ن و دیگر کے ان سے پارلیمانی تعلقات قائم رہے اور بعد ازاں مسلم لیگ ن کے دور میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تحریک انصاف سے بھی ڈائیلاگ کا عمل جاری رہا اور مخدوم شاہ محمود قریشی سے حکومت رابطہ کر کے اسے اعتماد میں لیتی رہی، موجودہ حکومت جسے سیاسی تبدیلی کا علمبردار کہا جاتا ہے ، انہوں نے برسر اقتدار آنے کے بعد جو طرز عمل اختیار کیا اسے کسی طرح بھی جمہوری قرار نہیں دیا جا سکتا یہاں یہ روایت بھی قائم ہوئی کہ تین سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد سے آج تک کسی بھی اہم ایشو اور اہم تقرریوں کے حوالے سے آئینی طریقہ کار پر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف میں براہ راست ملاقات نہیں ہوئی اب حالات اس نہج پر آ پہنچے ہیں کہ اب خود اپوزیشن بھی حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات یا تعلقات کی خواہاں نہیں اور اب اپوزیشن جماعتوں نے بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور حکومتی پالیسیوں کو بنیاد بنا کر ایوانوں کے بجائے میدانوں کا رخ کر لیا ہے اس سارے عمل کے حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ آنے والے حالات میں حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے اسلام آباد لانگ مارچ کے آپشن کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے ۔