سابق چیف جسٹس پر تنقید توہین عدالت نہیں، مریم اور عباسی کیخلاف درخواست مسترد: اسلام آباد ہائیکورٹ

سابق چیف جسٹس پر تنقید توہین عدالت نہیں، مریم اور عباسی کیخلاف درخواست مسترد: اسلام آباد ہائیکورٹ

ججزاوپن مائنڈ ،اونچی پوزیشن پرہوتے ہیں،تنقید کو ویلکم کرنا چاہیے ،متاثرہ بھی ہتک عزت کا دعویٰ کرسکتا:چیف جسٹس ، جج ریٹائرمنٹ کے بعد عام شہری، ہتک عزت پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں بنتی:پانچ صفحات پرمشتمل تحریری فیصلہ

اسلام آباد(اپنے نامہ نگارسے )اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عدلیہ کوسکینڈلائز کرنے کے الزام میں مسلم لیگ(ن)کی رہنما مریم نواز اورسابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف جو باتیں 24 نومبر کو مسلم لیگ ن کی پریس کانفرنس میں ہوئیں وہ نامناسب اورتوہین عدالت ہے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جوخودمتاثرہ ہے وہ بھی ہتک عزت کا دعویٰ کرسکتا ہے ، ریٹائرڈ آدمی کی توہین نہیں ہوتی بھلے وہ چیف جسٹس ہی کیوں نہ ہو،درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ انصار عباسی والاشوکاز نوٹس کیس بھی آپ کے پاس ہے ،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ الگ کیس ہے اور اس کو اس کے ساتھ نہ ملائیں،پہلی بات یہ ہے کہ تنقید سے متعلق ججزاوپن مائنڈ ہوتے ہیں اور جج بڑی اونچی پوزیشن پرہوتے ہیں،تنقید کو ویلکم کرنا چاہیے ،عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔بعدازاں پانچ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ میں عدالت نے درخواست مستردکرتے ہوئے کہا سابق چیف جسٹس پرمحض تنقید توہین عدالت کے زُمرے میں نہیں آتی،توہین عدالت کا قانون ججز نہیں بلکہ مقدمہ کے فریقین کی حفاظت کیلئے ہے ،ججز کا کام انصاف کی فراہمی ہے ،عوامی تنقید سے استثنیٰ حاصل نہیں،ایک آزاد جج تنقید سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوتا،توہین عدالت کی کارروائی صرف اور صرف عوامی مفاد میں عمل میں لائی جاتی ہے ،جج ریٹائرمنٹ کے بعد ایک عام آدمی ہوتا ہے ،ریٹائرمنٹ کے بعد جج کسی بھی عدالت کا حصہ نہیں رہتا،ریٹائرڈ جج آرڈیننس 2003ء کے تحت عدلیہ کاحصہ نہیں رہتا،ایک عام آدمی کی ہتک عزت پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں بنتی،عام آدمی کی عزت کی حفاظت کیلئے قانون موجود ہے ،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو ان کی ذاتی حیثیت میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، ذاتی حیثیت میں تنقید پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی،عدالت نے اپنے فیصلہ میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کیس کابھی حوالہ دیا اور کہا عدالت ایک فیصلے میں کہہ چکی کہ ججز قانون سے بالاتر نہیں اور جوابدہ ہیں،ریٹائرمنٹ کے بعد جج بینچ کا حصہ نہیں رہتے اور ان کا درجہ عام شہری کا ہوتا ہے ، بطور شہری ان کے پاس دادرسی کا متبادل فورم موجودہے ،ایک آزاد جج پر تنقید اس کے کام پر اثرانداز نہیں ہوتی،توہین عدالت کے اختیار کا استعمال صرف اسی صورت جائز ہے جب وہ عوامی مفاد میں ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں