400 لوگ لگا کر ایک ہفتے میں نسلہ ٹاور گرائیں: چیف جسٹس

400 لوگ لگا کر ایک ہفتے میں نسلہ ٹاور گرائیں: چیف جسٹس

نسلہ ٹاور کو نیچے سے گرا رہے ،حادثہ ہوا توذمہ دارکون ؟جسٹس گلزارکا استفسار،انجینئرزکی معاونت حاصل،کمشنرکراچی ، ملکی اکانومی ڈیڈ سٹاک پر پہنچ چکی، دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ،دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کا بیڑا غرق کردیا، ریمارکس ، ملک میں کالا پیسہ زیادہ ، جسٹس گلزار،اب ملٹری لینڈ پر کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائیگی :سیکرٹری دفاع

کراچی (سٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ نے کمشنر کراچی کو نسلہ ٹاور ایک ہفتے میں گرانے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی جبکہ کراچی کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی یونین میں فیملی پارک پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت میں فیصلہ دیا کہ رفاعی پلاٹس پر کسی قسم کی کمرشل یا گھروں کی تعمیرات نہیں ہو سکتیں۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل لارجر بینچ نے سماعت کی۔جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے کمشنر کراچی کو ریمارکس دیئے کہ 400لوگ لگا کر نسلہ ٹاورمنہدم کرکے رپورٹ پیش کریں۔ چیف جسٹس نے کمشنر کراچی اقبال میمن سے استفسار کیا کہ نسلہ ٹاور کو نیچے سے گرا رہے ہیں، یہ کیا طریقہ ہے ؟ کیا بنیادیں کمزور نہیں ہوں گی؟ اس طرح تو پوری عمارت نیچے گر جائے گی۔ اگر کوئی حادثہ رونما ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ کمشنر کراچی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے ۔ عمارتوں کو گرانے کا طریقہ کار یہی ہے ہم انجینئر کی معاونت سے عمارت منہدم کر رہے ہیں۔ اوپری منزلوں پر انہدام بعد میں ہوگا۔ عدالت نے استفسار کیاکہ کب تک مکمل کرلیں گے اسے ؟ ہم نے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا۔ جائیں چار سو لوگ لگادیں۔ سماعت کے دوران حافظ نعیم الرحمن نے روسٹرم پر آکر بولنے کی کوشش کی۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کون ہیں آپ؟ پھر حافظ نعیم الرحمن کو روسٹرم سے ہٹا دیا گیا۔ دوران سماعت نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ میں معاوضے کی بات کرنا چاہتا ہوں۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس کے حوالے سے حکم جاری کر چکے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ کمرہ عدالت سے چلے جائیں۔ لارجر بینچ نے کراچی کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی یونین میں فیملی پارک پر قبضے سے متعلق کیس کی بھی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ملک میں بیشتر بلیک اکانومی چل رہی ہے ،ملک کی اکانومی ڈیڈ سٹاک پر پہنچ چکی۔ کمرشلائزیشن سے انڈسٹری بند ہوچکی۔ پورے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ، اس دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں،ملک میں کالا پیسہ زیادہ ہے ، لوگوں نے انڈسٹریز ختم کرکے پیسہ زمینوں پر لگا دیا، دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کا بیڑا غرق کردیا۔منسٹری ورکس نے تمام سوسائٹیز کے لے آئوٹ پلان غائب کر دیئے ۔یہ شہر، شہر رہنے کے لیے چھوڑا نہیں، شہر کے ہر کونے پر مارکیٹں، دکانیں ہی دکانیں بنا دی گئیں، سپریم کورٹ نے ملٹری لینڈ پرجاری کمرشل سرگرمیوں سے متعلق پالیسی پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کی کیا پالیسی ہے جبکہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی دستخط سے رپورٹ اورپالیسی پیش کی جائے ۔ عدالت نے سیکرٹری دفاع کو بھی تحریری بیان جمع کرانے کا حکم دیا۔ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکرٹری صاحب یہ کیا ہورہا ہے ،آپ سنیما اور رہائشی پروجیکٹس چلارہے ہیں۔سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ مسلح افواج نے فیصلہ کیا ہے کہ کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جو کچھ ہو چکا اسے ٹھیک کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہے ۔ دوران سماعت چیف جسٹس سیکرٹری منسٹری ورکس پر برہم ہوگئے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے وزرات ورکس نے تو ہل پارک بھی اٹھا کر بیچ دیا تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ کمیونٹی سینٹر، کمیونٹی سینٹر کے نام الاٹ ہوتا ہے یہ تو آپ کے نام الاٹ ہوا؟ چیف جسٹس نے امبر علی بھائی سے استفسار کرتے ہو کہا کیا یہ سب پارک کی اراضی ہے ، امبر علی بھائی نے کہا میرے پاس سوسائٹی کا ماسٹر پلان موجود ہے ،وکیل بہادر یار جنگ سوسائٹی نے موقف دیا کہ یہ سب فراڈ ہوا، جسٹس اعجاز الاحسن نے رشید اے رضوی سے مکالمہ میں کہا کہ کے ڈی اے کا ماسٹر پلان دیکھ لیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پلاٹ نمبر 70 اور 72 تو پارک کی اراضی ہے ،بعد ازاں عدالت نے کراچی کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی یونین رفاعی پلاٹس سے متعلق عبوری فیصلہ سنا تے ہوئے حکم دیا کہ رفاعی پلاٹس پر کسی قسم کی کمرشل یا گھروں کی تعمیرات نہیں ہو سکتیں۔ عدالت نے پلاٹ نمبر 21 اور 21 اے پر تمام کمرشل سرگرمیاں بند کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے پلاٹ نمبر 23 پر جناح کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی شادی ہال، پارکنگ بند کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے پارکس اراضی پر تمام سرگرمیاں بند کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ عدالت نے گیارہ ہزار سے زائد اسکوائر یارڈ سے متعلق رپورٹس طلب کرلی۔ عدالت نے رفاعی پلاٹس کو نجی افراد کو دینے کی الاٹمنٹ کو بھی منسوخ کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے وزرات ورکس کو ایک ماہ میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے وزرات ورکس ایک ماہ میں عملدرآمد رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ عدالت نے الباری ٹاور کی قانونی پوزیشن طلب کرلی۔ عدالت نے الباری ٹاورز کو تیسرے فریق کو فروخت کرنے سے بھی روک دیا۔ سپریم کورٹ نے الباری ٹاورز پر تمام سرگرمیوں کو بھی روک دیا۔بعد ازاں عدالت نے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے دستخط سے رپورٹ اور پالیسی پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 30 نومبر تک ملتوی کردی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں