مہنگائی : ملک میں حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی

مہنگائی : ملک میں حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی

اراکین اسمبلی آواز اٹھانے کی بجائے اپنی مراعات کے بل پاس کر ا رہے ، ہر شخص اپنے اپنے اثر و رسوخ کے مطابق عام آدمی کو لوٹتا نظر آ رہا ہے

(تجزیہ: سلمان غنی) وفاقی ادارہ شماریات نے اپنی ہفتہ وار رپورٹ میں مہنگائی کی شرح 18 فیصد سے زائد ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں ہفتے میں 20 اشیائے خور و نوش میں اضافہ ہوا اور گھی کی قیمتوں میں کمی نہیں آسکی جبکہ دوسری جانب حکومتی ذمہ داروزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے ایسے بیانات آ رہے ہیں جن(صفحہ6بقیہ نمبر10) میں حکومتی پالیسیوں اور آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کے ثمرات عام آدمی تک منتقل کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت عوام کے لیے ریلیف کا عمل صرف اور صرف بیانات کی حد تک محدود کئے ہوئے ہے ۔ جبکہ عملاً زمینی حقائق یہ ہیں کہ آنے والے دنوں میں اشیائے ضروریات اور دیگر خورو نوش میں ہونے والے اضافہ کے عمل نے ہر طبقہ فکر ، حکومت ، عوام کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ عوام کی اکثریت کو اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑتے نظر آ رہے ہیں ۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ غربت ’ بھوک ’ افلاس ’ بے روز گاری ’ بے کاری کے خاتمے کے بعد حکومت نے غریب مکاؤ ایجنڈا پر عمل پیرا ہے ۔ آج ملک کی معاشی پالیسیوں اور اشیائے ضروریات ’ بجلی ’ پانی ’ گیس اور پٹرول سب کی قیمتوں کو آئی ایم ایف کی ہدایات سے منسلک کر دیا گیا ہے ، آئی ایم ایف کی شرائط پر نظر دوڑائی جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ہم فرعونی ’ شیطانی چکر کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں ، جس سے نکلنا محال ہو چکا ہے ۔ مگر ہمارے حکمران فرض کی ادائیگی کو اپنا کارنامہ بنا کر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے پر نظر دوڑائی جائے تو اس کی تمام شرائط کا بوجھ عام آدمی پر پڑتا نظر آرہا ہے ۔ اب حکومت اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی مل کر مہنگائی کی زد میں آئی عوام کے لیے آواز اٹھانے کی بجائے انہیں اپنی مراعات میں اضافہ کے بل پاس کرارہے ہیں اور حقائق یہی ہیں کہ عوام کی مہنگائی کے ہاتھوں نکلنے والی چیخوں پر آواز بلند کرنے کی بجائے اپنا بوجھ بھی یہ حکومتی خزانہ پر لادتے چلے جا رہے ہیں، ان بالائی طبقات کے ٹیلی فون وغیرہ کے اخراجات بھی سرکاری خزانے سے ادا ہوتے ہیں اس لیے وہ آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ عوام دشمن شرائط پر آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں ۔ مذکورہ معاہدے پر ہماری پارلیمنٹ قانون سازی کرے گی ! ، ہم اپنے اہم قومی مالیاتی اداروں کی رپورٹس اسے فراہم کر نے کے پابند ہوں گے ، مذکورہ صورتحال میں کس طرح سے اپنی قومی قیادت یا پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی سے امید لگائی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے مسائل زدہ عوام کے لیے آواز اٹھائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کے اندر مایوسی اور بے چینی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے ان کے چولہے بجھ رہے ہیں ، ان کو کچھ نظر نہیں آ رہا ہے ۔ عام طبقات فکر میں اکثر بحث ہو رہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری عمل کی کونسی قسم ہے ، نہ حکومت کو عوام کی حالت زار اور اس کی معاشی صورتحال کی فکر ہے اور نہ ہی اپوزیشن مسائل زدہ عوام کی آواز سننے کے لیے تیار ہے ۔ جہاں تک ہر آ نے والے دن اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا سوال ہے تو اس کے لیے اسے مانیٹرنگ کرنا ہو گا ۔ بظاہر تو یہ ذمہ داری صوبائی حکومتوں کی ہے کہ وہ مارکیٹ فورسز کے ہاتھ پکڑیں ۔ عوام کو استحصال کے کو بند کرائیں لیکن عملاً اس لیے مسئلہ آ رہا ہے کہ آج حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی اور مسائل زدہ عوام پریشان ہیں ۔ یہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے رحم و کرم پر ہیں ۔ ہر شخص اپنے اپنے اثر و رسوخ کے مطابق عام آدمی کو لوٹتا نظر آ رہا ہے ، ایک طرف تو مہنگائی کا عالمی رجحان عوام کو کھا رہا ہے تو دوسری جانب منافع خور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں